Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The 'Iddah Of A Pregnant Woman Whose Husband Dies)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3506.
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ کا اس کے خاوند کی وفات سے چند راتیں بعد بچہ پیدا ہوگیا‘ پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور نکاح کی اجازت طلب کی۔ چنانچہ آپ نے اسے اجازت دے دی اور اس نے نکاح کرلیا۔
تشریح:
عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو وہ حاملہ ہو تو جمہور اہل علم کے نزدیک اس کی عدت چار ماہ دس دن کے بجائے وضع حمل ہے۔ جب بچہ پیدا ہوجائے تو وہ آزاد ہے۔ چاہے تو آگے نکاح کرسکتی ہے۔ اب اس پر سوگ بھی نہیں رہا لیکن نفاس ختم ہونے تک خاوند اس کے قریب نہیں جا سکتا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ دونوں میں سے آخری عدت ہے‘ یعنی بچہ چار ماہ دس دن سے پہلے پیدا ہوجائے تو چار ماہ دس دن ہے اور اگر چار ماہ دس دن پہلے گزر جائیں تو وہ بچے کی پیدائش عدت ہے۔ گویا ان کا خیال تھا کہ سوگ اپنی جگہ ضروری ہے اور وضح حمل اپنی جگہ۔ وہ دونوں احادیث اور قرآنی آیت پر بیک وقت عمل کرتے ہیں۔ یہ بات اگرچہ معقول ہے مگر مذکورہ حدیث کے خلاف ہے‘ لہٰذا یہ غیر معتبر ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3508
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3506
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3536
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ کا اس کے خاوند کی وفات سے چند راتیں بعد بچہ پیدا ہوگیا‘ پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور نکاح کی اجازت طلب کی۔ چنانچہ آپ نے اسے اجازت دے دی اور اس نے نکاح کرلیا۔
حدیث حاشیہ:
عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو وہ حاملہ ہو تو جمہور اہل علم کے نزدیک اس کی عدت چار ماہ دس دن کے بجائے وضع حمل ہے۔ جب بچہ پیدا ہوجائے تو وہ آزاد ہے۔ چاہے تو آگے نکاح کرسکتی ہے۔ اب اس پر سوگ بھی نہیں رہا لیکن نفاس ختم ہونے تک خاوند اس کے قریب نہیں جا سکتا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ دونوں میں سے آخری عدت ہے‘ یعنی بچہ چار ماہ دس دن سے پہلے پیدا ہوجائے تو چار ماہ دس دن ہے اور اگر چار ماہ دس دن پہلے گزر جائیں تو وہ بچے کی پیدائش عدت ہے۔ گویا ان کا خیال تھا کہ سوگ اپنی جگہ ضروری ہے اور وضح حمل اپنی جگہ۔ وہ دونوں احادیث اور قرآنی آیت پر بیک وقت عمل کرتے ہیں۔ یہ بات اگرچہ معقول ہے مگر مذکورہ حدیث کے خلاف ہے‘ لہٰذا یہ غیر معتبر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمی ؓ کو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جن کر حالت نفاس میں ہوئے کچھ ہی راتیں گزریں تھیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے دوسری شادی کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے شادی کر لی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Al-Miswar bin Makhramah that Subai'ah Al-Aslamiyyah gave birth one day after her husband died. She came to the Messenger of Allah and asked his permission to marry, and he gave her permission to marry and she married.