Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The 'Iddah Of A Pregnant Woman Whose Husband Dies)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3520.
حضرت عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتبہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ آپ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ کے پاس جائیں اور ان سے پوچھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ان کے حمل کے سلسلے میں کیا ارشاد فرمایا تھا؟ حضرت عمربن عبداللہ ان کے پاس گئے اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ وہ حضرت سعد بن خولہ ؓ کے نکاح میں تھی۔ وہ صحابی رسول تھے۔ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ حجۃ الوداع میں فوت ہوگئے تو اس نے ان کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن گزرنے سے پہلے ہی بچہ جن دیا۔ جب وہ نفاس سے پاک ہوئی تو اس کے پاس ابوسنابل آئے جو بنوعبدالدار سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اسے زیب وزینت کی حالت میں دیکھا تو کہا: شاید تو نکاح کا ارادہ رکھتی ہے جب کہ ابھی چار ماہ دس دن نہیں گزرے۔ جب میں نے ابوسنابل سے یہ بات سنی تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور آپ سے پورا واقعہ کہہ سنایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تجھے بچہ پیدا ہوا تھا‘ تیری عدت ختم ہوگئی تھی۔“
تشریح:
حضرت سعد بن خولہ مہاجر تھے مگر حجۃ الوداع میں مکہ مکرمہ ہی میں فوت ہوگئے۔ رسول اللہﷺ نے اس پر اظہار افسوس بھی فرمایا تھا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3522
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3520
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3550
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتبہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ آپ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ کے پاس جائیں اور ان سے پوچھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ان کے حمل کے سلسلے میں کیا ارشاد فرمایا تھا؟ حضرت عمربن عبداللہ ان کے پاس گئے اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ وہ حضرت سعد بن خولہ ؓ کے نکاح میں تھی۔ وہ صحابی رسول تھے۔ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ حجۃ الوداع میں فوت ہوگئے تو اس نے ان کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن گزرنے سے پہلے ہی بچہ جن دیا۔ جب وہ نفاس سے پاک ہوئی تو اس کے پاس ابوسنابل آئے جو بنوعبدالدار سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اسے زیب وزینت کی حالت میں دیکھا تو کہا: شاید تو نکاح کا ارادہ رکھتی ہے جب کہ ابھی چار ماہ دس دن نہیں گزرے۔ جب میں نے ابوسنابل سے یہ بات سنی تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور آپ سے پورا واقعہ کہہ سنایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تجھے بچہ پیدا ہوا تھا‘ تیری عدت ختم ہوگئی تھی۔“
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد بن خولہ مہاجر تھے مگر حجۃ الوداع میں مکہ مکرمہ ہی میں فوت ہوگئے۔ رسول اللہﷺ نے اس پر اظہار افسوس بھی فرمایا تھا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتبہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ تم سبیعہ بنت الحارث اسلمی ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے حمل کے سلسلے میں انہیں کیا فتویٰ دیا تھا؟ عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں (اس خط کے بعد) عمر بن عبداللہ نے سبیعہ ؓ کے پاس جا کر ان سے پوچھا تو انہوں نے انہیں بتایا کہ وہ سعد بن خولہ ؓ کی بیوی تھیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ان صحابہ میں سے تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، وہ حجۃ الوداع میں وفات پا گئے اور شوہر کی وفات سے لے کر چار مہینہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہو گیا، پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو بنو عبدالدار کے ایک شخص ابوالسنابل ؓ ان کے پاس آئے اور انہیں زیب و زینت میں دیکھا تو کہا (عدت کے) چار ماہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی غالباً تم شادی کرنے کا ارادہ کر رہی ہو؟ وہ (سبیعہ) کہتی ہیں: جب میں نے ابوالسنابل سے یہ بات سنی تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، میں نے آپ کو اپنی (اور ان کی) بات چیت بتائی۔ آپ نے فرمایا: ”تم تو اسی وقت سے حلال ہو گئی ہو جب تم نے بچہ جنا۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اب تم جب چاہو اور جس کے ساتھ چاہو شادی کر سکتی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Ubaidullah bin 'Abdullah that 'Abdullah bin 'Utbah wrote to 'Umar bin 'Abdullah bin Al-Arqam Az-Zuhri, telling him: "Go to Subai'ah bint Al-Harith Al-Aslamiyyah, and ask her about the ruling of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) concerning her pregnancy." He said: "So 'Umar bin 'Abdullah went to her and asked her. She told him that she was married to Sa'd bin Khawlah, who was one of the Companions of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) who had been present at Badr. He died during the Farewell Pilgrimage, and she gave birth before four months and ten days had passed since her husband's death. When her Nifas ended, Abu As-Sanabil -a man from Banu 'Abd Ad-Dar- went to her and saw that she had adorned herself. He said: 'Perhaps you want to get married before four months and ten days has passed?' She said: 'When I heard that from Abu As-Sanabil, I went to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and told him my story. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'It is permissible for you to marry when you gave birth.