Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The 'Iddah Of A Pregnant Woman Whose Husband Dies)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3521.
حضرت محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ میں کوفہ شہر میں انصار کی ایک بہت بڑی مجلس میں بیٹھا تھا۔ ان میں حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بھی موجود تھے۔ حاضرین نے حضرت سبیعہؓ کا واقعہ ذکر کیا۔ میں نے حضرت عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے ذکر کیا کہ جب بچہ پیدا ہو تو عورت کی عدت ختم ہوجاتی ہے۔ حضرت ابن ابی لیلیٰ کہنے لگے: لیکن ان کے چچا (حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ) تو اس کے قائل نہیں۔ میں نے ذرا بلند آواز میں کہا: اگر میں حضرت عبداللہ بن عتبہ پر بہتان باندھوں جب کہ وہ کوفہ شہر میں زندہ موجود ہیں‘ پھر میں تو بہت بے پاک ہوں؟ پھر میں اپنے استاد حضرت مالک سے ملا۔ میں نے کہا کہ حضرت ابن مسعود ؓ سبیعہ کے بارے میں کیا فرماتے تھے؟ مالک کہنے لگے کہ انہوں نے فرمایا: کیا تم اس پر سختی کرتے ہو‘ نرمی نہیں کرتے؟ چھوٹی سورۂ نساء (سورۂ طلاق) بڑی سورۂ نساء سے بعد اتری ہے۔
تشریح:
(1) ”سختی کرتے ہو“ یعنی اگر عورت کو آخری عدت گزارنے کا پابند کیا جائے تو یہ اس پر بے جاسختی ہے کہ بچہ پہلے پیدا ہوتو چار ماہ دس دن پورے کرے اور اگر چار ماہ دس دن پہلے پورے ہوجائیں تو بچہ پیدا ہونے کا انتظار کرے۔ گویا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس مسلک کو پسند نہیں فرمایا بلکہ وہ حاملہ عورت کے لیے وضـع حمل ہی کو عدت قراردیتے تھے۔ (2) ”چھوٹی نساء“ یعنی وہ چھوٹی سورت جس میں عورتوں کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ اس سے مراد سورۂ طلاق ہے جس میں یہ آیت ہے: ﴿وَأُولاتُ الأحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾(الطلاق: ۶۵:۴) ”حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش) ہے۔“ (3) بڑی سورۂ نساء سے مراد وہ بڑی سورت ہے جس میں عورتوں کے مسائل بیان ہوئے‘ یعنی سورۂ بقرہ جس میں ذکر ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے‘ وہ چار مہینے دس دن انتظار کرے۔ (4) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ حاملہ عورتو ں کا حکم بعد میں بیان کیا گیا‘ لہٰذا وہ چار ماہ دس دن کے حکم سے مستثنیٰ ہیں اور یہی مسلک ہے۔ (5) حق بات پہنچنے کے لیے اہل علم بیٹھ کر کسی مسئلے کے بارے میں بحث مباحثہ کرسکتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3523
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3521
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3551
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ میں کوفہ شہر میں انصار کی ایک بہت بڑی مجلس میں بیٹھا تھا۔ ان میں حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بھی موجود تھے۔ حاضرین نے حضرت سبیعہؓ کا واقعہ ذکر کیا۔ میں نے حضرت عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے ذکر کیا کہ جب بچہ پیدا ہو تو عورت کی عدت ختم ہوجاتی ہے۔ حضرت ابن ابی لیلیٰ کہنے لگے: لیکن ان کے چچا (حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ) تو اس کے قائل نہیں۔ میں نے ذرا بلند آواز میں کہا: اگر میں حضرت عبداللہ بن عتبہ پر بہتان باندھوں جب کہ وہ کوفہ شہر میں زندہ موجود ہیں‘ پھر میں تو بہت بے پاک ہوں؟ پھر میں اپنے استاد حضرت مالک سے ملا۔ میں نے کہا کہ حضرت ابن مسعود ؓ سبیعہ کے بارے میں کیا فرماتے تھے؟ مالک کہنے لگے کہ انہوں نے فرمایا: کیا تم اس پر سختی کرتے ہو‘ نرمی نہیں کرتے؟ چھوٹی سورۂ نساء (سورۂ طلاق) بڑی سورۂ نساء سے بعد اتری ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”سختی کرتے ہو“ یعنی اگر عورت کو آخری عدت گزارنے کا پابند کیا جائے تو یہ اس پر بے جاسختی ہے کہ بچہ پہلے پیدا ہوتو چار ماہ دس دن پورے کرے اور اگر چار ماہ دس دن پہلے پورے ہوجائیں تو بچہ پیدا ہونے کا انتظار کرے۔ گویا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس مسلک کو پسند نہیں فرمایا بلکہ وہ حاملہ عورت کے لیے وضـع حمل ہی کو عدت قراردیتے تھے۔ (2) ”چھوٹی نساء“ یعنی وہ چھوٹی سورت جس میں عورتوں کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ اس سے مراد سورۂ طلاق ہے جس میں یہ آیت ہے: ﴿وَأُولاتُ الأحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾(الطلاق: ۶۵:۴) ”حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش) ہے۔“ (3) بڑی سورۂ نساء سے مراد وہ بڑی سورت ہے جس میں عورتوں کے مسائل بیان ہوئے‘ یعنی سورۂ بقرہ جس میں ذکر ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے‘ وہ چار مہینے دس دن انتظار کرے۔ (4) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ حاملہ عورتو ں کا حکم بعد میں بیان کیا گیا‘ لہٰذا وہ چار ماہ دس دن کے حکم سے مستثنیٰ ہیں اور یہی مسلک ہے۔ (5) حق بات پہنچنے کے لیے اہل علم بیٹھ کر کسی مسئلے کے بارے میں بحث مباحثہ کرسکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں کوفہ میں انصار کی ایک بڑی مجلس میں لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، اس مجلس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلی بھی موجود تھے، ان لوگوں نے سبیعہ ؓ کا تذکرہ چھیڑا تو میں نے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کی روایت کا ذکر کیا جو (روایت) ابن عون کے قول «حتیٰ تضع» کے معنیٰ اور حق میں تھی (یعنی حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے)،(اس بات پر) ابن ابی لیلیٰ نے کہا: لیکن ان کے ( یعنی عبداللہ بن عتبہ کے) چچا (ابن مسعود ؓ) اس کے قائل نہ تھے (کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے بلکہ وہ زیادہ مدت والی عدت کے قائل تھے) تب میں نے اپنی آواز بلند کی اور (زور سے) کہا: کیا میں جرات کر سکتا ہوں کہ عبداللہ بن عتبہ پر جھوٹا الزام لگاؤں (یہ نہیں ہو سکتا) وہ (عبداللہ بن عتبہ) کوفہ کے علاقے میں موجود ہیں (جس کو ذرا بھی شک و شبہ ہو وہ ان سے پوچھ سکتا ہے) پھر میں مالک (بن عامر ابن عود) سے ملا اور ان سے پوچھا کہ ابن مسعود ؓ سبیعہ ؓ کے معاملے میں کیا کہتے تھے؟ مالک نے کہا کہ ابن مسعود ؓ نے کہا: کیا تم لوگ اس پر سختی اور تنگی ڈالتے ہو (اس سے زیادہ مدت والی عدت پر عمل کرانا چاہتے ہو) اور اسے رخصت سے فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہتے۔ جب کہ چھوٹی سورۃ النساء (یعنی سورۃ الطلاق، جس میں حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل بتائی گئی ہے) بڑی سورۃ (بقرہ) کے بعد اتری ہے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی یہ عدت چار ماہ دس دن کی عدت سے مستثنیٰ اور الگ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Muhammad said: "I was sitting with some people in Al-Kufah in a large gathering of the Ansar, among whom was 'Abdur-Rahman bin Abi Laila. They spoke about the story of Subai'ah and I mentioned what 'Abdullah bin 'Utbah bin Mas'ud had said in meaning." (One of the narrators) Ibn 'Awn's saying was: "when she gives birth." Ibn Abi Layla said: 'But his (paternal) uncle did not say that.' I raised my voice and said: 'Would I dare to tell lies about 'Abdullah bin 'Utbah when he is in the vicinity of Al-Kufah?'" He said: "Then I met Malik and said: 'What did Ibn Mas'ud say about the story of Subai'ah?' He said: 'He said: "Are you going to be too strict with her and not allow her the concession (with regard to the 'Iddah)? The shorter Surah about women (At-Talaq) was revealed after the longer one (Al-Baqarah).