Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The 'Iddah Of A Pregnant Woman Whose Husband Dies)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3522.
حضرت علقمہ بن قیس سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا: جو شخص چاہے میں اس سے مباہلہ کرسکتا ہوں کہ آیت: ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ…﴾ ”حمل والی عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ بچہ جن دیں۔“ اس آیت سے بعد اتری ہے جس میں اس عورت کی عدت بیان کی گئی ہے جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو‘ جب اسے بچہ پیدا ہوجائے تو اس کی عدت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ الفاظ میمون بن عباس کے ہیں۔
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کے اس حدیث میں دواستاد ہیں: محمد بن مسکین اور میمون بن عباس۔ یہ الفاظ میمون کے ہیں۔ (2) ”مباہلہ“ یعنی جو جھوٹا‘ اس پر لعنت۔ گویا ان کو کامل یقین تھا کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3524
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3522
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3552
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت علقمہ بن قیس سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا: جو شخص چاہے میں اس سے مباہلہ کرسکتا ہوں کہ آیت: ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ…﴾ ”حمل والی عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ بچہ جن دیں۔“ اس آیت سے بعد اتری ہے جس میں اس عورت کی عدت بیان کی گئی ہے جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو‘ جب اسے بچہ پیدا ہوجائے تو اس کی عدت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ الفاظ میمون بن عباس کے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کے اس حدیث میں دواستاد ہیں: محمد بن مسکین اور میمون بن عباس۔ یہ الفاظ میمون کے ہیں۔ (2) ”مباہلہ“ یعنی جو جھوٹا‘ اس پر لعنت۔ گویا ان کو کامل یقین تھا کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علقمہ بن قیس سے روایت ہے کہ ابن مسعود ؓ نے کہا: جو کوئی مجھ سے مباہلہ کرنا چاہے میں اس سے اس بات پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں (کہ حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے) کیونکہ وضع حمل کی مدت سے متعلق آیت «الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا» والی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے، اس لیے جس کا شوہر مر گیا ہو جب وہ بچہ جن دے گی حلال ہو جائے گی۔ اس روایت کے الفاظ میمون کے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
w
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Alqamah bin Qais that Ibn Mas'ud said: "Whoever wants, I will meet and debate with him and invoke the curse of Allah upon those who lie. The Verse: 'And for those who are pregnant (whether they are divorced or their husbands are dead), their 'Iddah (prescribed period) is until they lay down their burden.' was only revealed after the Verse about women whose husbands die. 'When a woman whose husband has died gives birth, it becomes permissible for her to marry.'" This is the wording of Maimun (one of the narrators).