باب: جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے‘ اسے اخراجات نہیں ملیں گے کیونکہ اس کے لیے وراثت مقرر کردی گئی ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Abrogation Of Maintenance And Residence For The Widow, Which Are Replaced By The Share Of Inheritanc)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3543.
حضرت ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ… غَيْرَ إِخْرَاجٍ} ”جو لوگ قریب المرگ ہوں اور ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ مرنے سے پہلے اپنی بیویوں کے لیے وصیت کرجائیں کہ انہیں ایک سال تک اخراجات دیے جائیں‘ نیز انہیں گھر سے نہ نکالا جائے۔“ کے بارے میں فرمایا کہ یہ حکم وراثت کی آیت سے منسوخ ہے جس میں ان کے لیے پوچھا یا آٹھواں حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ اور ایک سال کی مدت بھی منسوخ ہے کیونکہ ان کی عدت چار ماہ دس دن تک مقرر کردی گئی ہے۔
تشریح:
یہ آیت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک تو منسوخ ہے مگر بعض محققین کے نزدیک یہ حسن سلوک کی ایک صورت ہے کہ خاوند وصیت کرجائے کہ میری بیوی کو ایک سال تک گھر سے نکالا نہ جائے تاکہ اسے پریشانی نہ ہو‘ جب وہ اپنا انتظام کرلے تو منتقل ہوجائے۔ البتہ یہ واجب نہیں اور نہ لواحقین کے لیے اس پر عمل واجب ہے۔ چونکہ عورت کا حصہ وراثت مقرر کردیا گیا ہے‘ لہٰذا اسے دوران عدت اخراجات دینا لواحقین کے لیے ضروری نہیں۔﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ… غَيْرَ إِخْرَاجٍ﴾ ”جو لوگ قریب المرگ ہوں اور ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ مرنے سے پہلے اپنی بیویوں کے لیے وصیت کرجائیں کہ انہیں ایک سال تک اخراجات دیے جائیں اور انہیں گھر سے نہ نکالا جائے۔“ کے بارے میں فرمایا کہ اس آیت کو اس (دوسری) آیت نے منسوخ کردیا: ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ… أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ ”جو لوگ فوت ہوجائیں اور ان کی بیویاں زندہ ہوں تو بیویاں چار ماہ دس دن تک اپنے آپ کو (ادھر ادھر جانے‘ زیب وزینت کرنے اور نکاح وغیرہ سے) روک کر رکھیں۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3547
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3545
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3573
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ… غَيْرَ إِخْرَاجٍ} ”جو لوگ قریب المرگ ہوں اور ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ مرنے سے پہلے اپنی بیویوں کے لیے وصیت کرجائیں کہ انہیں ایک سال تک اخراجات دیے جائیں‘ نیز انہیں گھر سے نہ نکالا جائے۔“ کے بارے میں فرمایا کہ یہ حکم وراثت کی آیت سے منسوخ ہے جس میں ان کے لیے پوچھا یا آٹھواں حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ اور ایک سال کی مدت بھی منسوخ ہے کیونکہ ان کی عدت چار ماہ دس دن تک مقرر کردی گئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ آیت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک تو منسوخ ہے مگر بعض محققین کے نزدیک یہ حسن سلوک کی ایک صورت ہے کہ خاوند وصیت کرجائے کہ میری بیوی کو ایک سال تک گھر سے نکالا نہ جائے تاکہ اسے پریشانی نہ ہو‘ جب وہ اپنا انتظام کرلے تو منتقل ہوجائے۔ البتہ یہ واجب نہیں اور نہ لواحقین کے لیے اس پر عمل واجب ہے۔ چونکہ عورت کا حصہ وراثت مقرر کردیا گیا ہے‘ لہٰذا اسے دوران عدت اخراجات دینا لواحقین کے لیے ضروری نہیں۔﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ… غَيْرَ إِخْرَاجٍ﴾ ”جو لوگ قریب المرگ ہوں اور ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ مرنے سے پہلے اپنی بیویوں کے لیے وصیت کرجائیں کہ انہیں ایک سال تک اخراجات دیے جائیں اور انہیں گھر سے نہ نکالا جائے۔“ کے بارے میں فرمایا کہ اس آیت کو اس (دوسری) آیت نے منسوخ کردیا: ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ… أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ ”جو لوگ فوت ہوجائیں اور ان کی بیویاں زندہ ہوں تو بیویاں چار ماہ دس دن تک اپنے آپ کو (ادھر ادھر جانے‘ زیب وزینت کرنے اور نکاح وغیرہ سے) روک کر رکھیں۔“
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ اللہ تعالیٰ کے اس قول «وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ»”اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیبیاں چھوڑ جائیں (یعنی جس وقت مرنے لگیں) تو وہ اپنی بیبیوں کے لیے ایک سال تک ان کو نہ نکالنے اور خرچ دینے کی وصیت کر جائیں۔“ (البقرہ: ۲۴۰) کے متعلق فرماتے ہیں: یہ آیت میراث کی آیت سے منسوخ ہو گئی ہے جس میں عورت کا چوتھائی اور آٹھواں حصہ مقرر کر دیا گیا ہے اور ایک سال تک عدت میں رہنے کا حکم چار ماہ دس دن کے حکم سے منسوخ ہو گیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas (RA), with regard to Allah's saying: "And those of you who die and leave behind wives should bequeath for their wives a year's maintenance and residence without turning them out." This was abrogated by the Verse on inheritance, which allocated to her one-quarter or one-eighth. And the appointed time ('Iddah) of one year was abrogated and replaced with the ('Iddah) term of four months and ten days.