کتاب: گھوڑوں‘گھڑ دوڑ پر انعام اور تیر اندازی سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: آدمی اپنے گھوڑے کو ترتیب دے سکتا ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Horses, Races and Shooting
(Chapter: A Man Training His Horse)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3578.
حضرت خالد بن یزید جہنی سے روایت ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر ؓ میرے پاس سے گزرتے تو فرماتے: خالد! آؤ باہر جا کر تیراندازی کریں۔ ایک دن مجھے ذرا دیر ہوگئی تو فرمانے لگے: خالد آؤ میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے۔ میں ان کے پاس پہنچا تو فرمانے لگے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین اشخاص کو جنت میں داخل فرمائے گا: ایک تو تیر بنانے والا‘ جو تیر بناتے وقت اچھی (جہاد یا ثواب کی) نیت رکھتا ہے۔ دوسرا تیر پھینکنے والا‘ اور تیسرا تیر پکڑانے والا۔ تیر اندازی (کی مشق) کیا کرو اور سواری (کی مشق) کیا کرو۔ اور میرے نزدیک تیراندازی گھوڑ سواری سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ مستحب کھیل صرف تین ہیں: آدمی اپنے گھوڑے کو تربیت دے یا اپنی بیوی سے دل لگی کرے یا اپنے تیر کمان سے تیر اندازی (کی مشق) کرے۔ جس آدمی نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اسے اہمیت نہ دیتے ہوئے چھوڑ دیا تو اس نے (اللہ تعالیٰ کی) نعمت کی ناشکری کی۔“
تشریح:
(1) ”پسندیدہ ہے“ کیونکہ تیر چلانا نہ آتا ہو تو گھوڑ سواری بے فائدہ ہے‘ جبکہ تیر اندازی اکیلی بھی مفید ہے۔ (2) ”مستحب کھیل“ یعنی ان میں ثواب حاصل ہوتا ہے کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوتی ہے‘ جبکہ دوسرے کھیل صرف جسمانی تفریح کا فائدہ دیتے ہیں اور اس جسمانی تفریح کا کیا فائدہ جو کسی کام نہ آئے؟ اگر جسمانی تفریح اور ورزش جہاد وغیرہ میں مفید ہوں تو ثواب کا موجب ہیں۔ (3) ”ناشکری کی“ البتہ اگر اپنی دیگر مصروفیات کی بنا پر چھوڑا تو کوئی حرج نہیں۔ (4) محقق کتاب نے اس روایت کی سند کو حسن قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے خالد بن یزید کی جہالت کی بنا پر اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے‘ تاہم ”تین کھیل مستحب ہیں“ والا حصہ دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے‘ (ذخیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي: ۳۰/۱۳ وضعیف سنن النسائي‘ رقم: ۳۵۸۰)
حضرت خالد بن یزید جہنی سے روایت ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر ؓ میرے پاس سے گزرتے تو فرماتے: خالد! آؤ باہر جا کر تیراندازی کریں۔ ایک دن مجھے ذرا دیر ہوگئی تو فرمانے لگے: خالد آؤ میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے۔ میں ان کے پاس پہنچا تو فرمانے لگے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین اشخاص کو جنت میں داخل فرمائے گا: ایک تو تیر بنانے والا‘ جو تیر بناتے وقت اچھی (جہاد یا ثواب کی) نیت رکھتا ہے۔ دوسرا تیر پھینکنے والا‘ اور تیسرا تیر پکڑانے والا۔ تیر اندازی (کی مشق) کیا کرو اور سواری (کی مشق) کیا کرو۔ اور میرے نزدیک تیراندازی گھوڑ سواری سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ مستحب کھیل صرف تین ہیں: آدمی اپنے گھوڑے کو تربیت دے یا اپنی بیوی سے دل لگی کرے یا اپنے تیر کمان سے تیر اندازی (کی مشق) کرے۔ جس آدمی نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اسے اہمیت نہ دیتے ہوئے چھوڑ دیا تو اس نے (اللہ تعالیٰ کی) نعمت کی ناشکری کی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”پسندیدہ ہے“ کیونکہ تیر چلانا نہ آتا ہو تو گھوڑ سواری بے فائدہ ہے‘ جبکہ تیر اندازی اکیلی بھی مفید ہے۔ (2) ”مستحب کھیل“ یعنی ان میں ثواب حاصل ہوتا ہے کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوتی ہے‘ جبکہ دوسرے کھیل صرف جسمانی تفریح کا فائدہ دیتے ہیں اور اس جسمانی تفریح کا کیا فائدہ جو کسی کام نہ آئے؟ اگر جسمانی تفریح اور ورزش جہاد وغیرہ میں مفید ہوں تو ثواب کا موجب ہیں۔ (3) ”ناشکری کی“ البتہ اگر اپنی دیگر مصروفیات کی بنا پر چھوڑا تو کوئی حرج نہیں۔ (4) محقق کتاب نے اس روایت کی سند کو حسن قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے خالد بن یزید کی جہالت کی بنا پر اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے‘ تاہم ”تین کھیل مستحب ہیں“ والا حصہ دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے‘ (ذخیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي: ۳۰/۱۳ وضعیف سنن النسائي‘ رقم: ۳۵۸۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
خالد بن یزید جہنی کہتے ہیں کہ عقبہ بن عامر ؓ ہمارے قریب سے گزرا کرتے تھے، کہتے تھے: اے خالد! ہمارے ساتھ آؤ، چل کر تیر اندازی کرتے ہیں، پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں سستی سے ان کے ساتھ نکلنے میں دیر کر دی تو انہوں نے آواز لگائی: خالد! میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی فرمائی ہوئی ایک بات بتاتا ہوں، چنانچہ میں ان کے پاس گیا۔ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ ایک تیر کے ذریعے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائے گا: (ایک) بھلائی حاصل کرنے کے ارادہ سے تیر بنانے والا، (دوسرا) تیر چلانے والا، (تیسرا) تیر پکڑنے والا، اٹھا اٹھا کر دینے والا، (آپ ﷺ نے فرمایا:) تیر اندازی کرو، گھوڑ سواری کرو اور تمہاری تیر اندازی مجھے تمہاری گھوڑ سواری سے زیادہ محبوب ہے۔ (مباح و مندوب) لہو و لذت یابی، تفریح و مزہ تو صرف تین چیزوں میں ہے: (ایک) اپنے گھوڑے کو میدان میں کار آمد بنانے کے لیے سدھانے میں، (دوسرے) اپنی بیوی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، کھیل کود میں اور (تیسرے) اپنی کمان و تیر سے تیر اندازی کرنے میں اور جو شخص تیر اندازی جاننے (و سیکھنے) کے بعد اس سے نفرت و بیزاری کے باعث اسے چھوڑ دے تو اس نے ایک نعمت کی (جو اسے حاصل تھی) ناشکری (و ناقدری) کی۔ راوی کو شبہ ہو گیا ہے کہ آپ نے اس موقع پر«كَفَرَهَا» کہا یا «كَفَرَ بِهَا» کہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Khalid bin Yazid Al-Juhani said: "Uqbah bin 'Amir used to pass by me and say: 'O Khalid, let us go out and shoot arrows.' One day I came late and he said: 'O Khalid, come and I will tell you what the Messenger of Allah said.' So I went to him and he said: 'The Messenger of Allah said: Allah will admit three people to Paradise because of one arrow: The one who makes it seeking good thereby, the one who shoots it and the one who hands it to him. So shoot and ride, and if you shoot that is dearer to me than if you ride. And play is only in three things: A man training his horse, and playing with his wife, and shooting with his bow and arrow. Whoever gives up shooting after learning it because he is no longer interested in it, that is a blessing for which he is ungrateful -or that he has rejected.