باب: اگر کوئی اچانک فوت ہوجائے تو کیا گھر واوں کے لیے بہتر ہے کہ ا سکی طرف سے صدقہ کریں؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: If A Person Dies Unexpectedly, It Is Recommended For His Family To Give Charity On His Behalf)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3650.
حضرت سعید بن عمروبن شرجیل بن سعید بن سعد بن عبادہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا حضرت سعید بن سعد بن عبادہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ (میرے والد محترم) حضرت سعد بن عبادہ ؓ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جنگ میں گئے ہوئے تھے کہ مدینہ منورہ میں ان کی والدہ محترمہ کی وفات کا وقت آگیا۔ ان سے کہا گیا: کوئی وصیت فرمائیے۔ وہ کہنے لگیں: میں کیا وصیت کروں؟ مال تو سعد کا ہے۔ وہ حضرت سعد ؓ کے واپس آنے سے پہلے ہی فوت ہوگئیں۔ پھر جب سعد آئے تو ان سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا‘ چنانچہ وہ (رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوکر) کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں فائدہ ہوگا؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ سعد کہنے لگے: میرا فلاں فلاں باغ ان کی طرف سے صدقہ (جاریہ) ہے۔
تشریح:
(1) پچھلی روایت میں ذکر تھا کہ ”ان کی جان اچانک نکل گئی۔“ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں بالکل بات چیت کا موقع نہیں ملا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زیادہ دیر بیمار نہ رہیں بلکہ تھوڑی دیر ہی میں فوت ہوگئیں‘ ورنہ انہوں نے کچھ بات چیت کی ہے۔ یا ممکن ہے وفات کے قریب ان کی زبان بند ہوگئی ہو اور وہ کلام نہ کرسکی ہوں جیسا کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ بات چیت پہلے کی ہو۔ (2) ”ہاں“ معلوم ہوا میت کی طرف سے مالی صدقہ کیا جاسکتا ہے اور میت کو اس کا فائدہ ہوگا۔ (3) مالی صدقے کے بارے میں تو اتفاق ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کیا جاسکتا ہے مگر بدنی عبادات‘ مثلاً: قرا ء ت قرآن، نماز، وغیرہ کے بارے میں اختلاف ہے۔ راجح کی بات یہی ہے کہ یہ میت کی طرف سے ادا نہیں کیے جاسکتے‘ نہ ایصال ثواب کی نیت ہی سے انہیں ادا کرنا جائز ہے‘ البتہ روزے کے بارے میں نبی ﷺ کا فرمان ہے : [مَن ماتَ وعليه صيامٌصامَ عنه وَليُّه] ”جو شخص فوت ہوگیا اور اس کے ذمے روزے تھے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔“ اسی طرح اگر میت ترکہ چھوڑ گئی ہے اور اس کے ذمے حج تھا یا نذر وغیرہ تو اس کے ورثاء اس کی طرف سے ادا کریں گے۔ ویسے اولاد کے بدنی ومالی ہر نیک کام کا اجر والدین کو ملتا رہتا ہے‘ خواہ وہ نیت کریں یا نہ کریں کیونکہ اولاد والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ واللہ أعلم۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: حدیث: ۳۶۹۶ٌ)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3654
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3652
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3680
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت سعید بن عمروبن شرجیل بن سعید بن سعد بن عبادہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا حضرت سعید بن سعد بن عبادہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ (میرے والد محترم) حضرت سعد بن عبادہ ؓ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جنگ میں گئے ہوئے تھے کہ مدینہ منورہ میں ان کی والدہ محترمہ کی وفات کا وقت آگیا۔ ان سے کہا گیا: کوئی وصیت فرمائیے۔ وہ کہنے لگیں: میں کیا وصیت کروں؟ مال تو سعد کا ہے۔ وہ حضرت سعد ؓ کے واپس آنے سے پہلے ہی فوت ہوگئیں۔ پھر جب سعد آئے تو ان سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا‘ چنانچہ وہ (رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوکر) کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں فائدہ ہوگا؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ سعد کہنے لگے: میرا فلاں فلاں باغ ان کی طرف سے صدقہ (جاریہ) ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) پچھلی روایت میں ذکر تھا کہ ”ان کی جان اچانک نکل گئی۔“ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں بالکل بات چیت کا موقع نہیں ملا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زیادہ دیر بیمار نہ رہیں بلکہ تھوڑی دیر ہی میں فوت ہوگئیں‘ ورنہ انہوں نے کچھ بات چیت کی ہے۔ یا ممکن ہے وفات کے قریب ان کی زبان بند ہوگئی ہو اور وہ کلام نہ کرسکی ہوں جیسا کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ بات چیت پہلے کی ہو۔ (2) ”ہاں“ معلوم ہوا میت کی طرف سے مالی صدقہ کیا جاسکتا ہے اور میت کو اس کا فائدہ ہوگا۔ (3) مالی صدقے کے بارے میں تو اتفاق ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کیا جاسکتا ہے مگر بدنی عبادات‘ مثلاً: قرا ء ت قرآن، نماز، وغیرہ کے بارے میں اختلاف ہے۔ راجح کی بات یہی ہے کہ یہ میت کی طرف سے ادا نہیں کیے جاسکتے‘ نہ ایصال ثواب کی نیت ہی سے انہیں ادا کرنا جائز ہے‘ البتہ روزے کے بارے میں نبی ﷺ کا فرمان ہے : [مَن ماتَ وعليه صيامٌصامَ عنه وَليُّه] ”جو شخص فوت ہوگیا اور اس کے ذمے روزے تھے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔“ اسی طرح اگر میت ترکہ چھوڑ گئی ہے اور اس کے ذمے حج تھا یا نذر وغیرہ تو اس کے ورثاء اس کی طرف سے ادا کریں گے۔ ویسے اولاد کے بدنی ومالی ہر نیک کام کا اجر والدین کو ملتا رہتا ہے‘ خواہ وہ نیت کریں یا نہ کریں کیونکہ اولاد والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ واللہ أعلم۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: حدیث: ۳۶۹۶ٌ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک غزوہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ مدینہ میں ان کی ماں کے انتقال کا وقت آ پہنچا، ان سے کہا گیا کہ وصیت کر دیں، تو انہوں نے کہا: میں کس چیز میں وصیت کروں؟ جو کچھ مال ہے وہ سعد کا ہے، سعد کے ان کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی وہ انتقال کر گئیں، جب سعد ؓ گئے تو ان سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! اگر میں ان کی طرف سے صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں فائدہ پہنچے گا؟ آپ نے فرمایا: ” ہاں“، سعد ؓ نے کہا: فلاں باغ ایسے اور ایسے ان کی طرف سے صدقہ ہے، اور باغ کا نام لیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Sa'eed bin 'Amr bin Shurahbil bin Sa'eed bin Sa'd bin 'Ubadah, from his father, that his grandfather said: "Sa'd bin 'Ubadah went out with the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) on one of his campaigns, and death came to his mother in Al-Madinah. It was said to her (as she was dying): 'Make a will.' She said: 'To whom shall I make a will? The wealth belongs to Sa'd.' Then she died before Sa'd came. When Sa'd came, he was told about that and he said: 'O Messenger of Allah, will it benefit her if I give in charity on her behalf?' The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Yes.' Sa'd said: 'Such and such a garden is given in charity on her behalf' -regarding a garden that he named.