Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: The Prohibition of Bloodshed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3984.
حضرت ابو ادریس بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خطبہ ارشاد فرماتے سنا، اور وہ اللہ کے رسول ﷺ سے بہت کم روایات بیان کرتے تھے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبے میں ارشاد فرماتے سنا: “امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف فرما دے مگر یہ کہ کوئی شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے یا کفر کی حالت میں فوت ہو جائے۔“
تشریح:
مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ قرآن مجید میں اس کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم، اللہ کا غصہ، لعنت او عذاب عظیم بتائی گئی ہے۔ کسی اور گناہ کی یہ سزا نہیں بتلائی گئی، اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایسے شخص کی توبہ بھی قبول نہیں۔ اسے مندرجہ بالا سزائیں بھگتنا ہوں گی۔ یا دنیا میں وہ قصاص دے دے، یعنی قصاصاً مار دیا جائے تو حد گناہ کو مٹا دیتی ہے ورنہ معاف نہ ہو گا۔ ویسے بھی یہ حقوق العباد میں سب سے اہم حق ہے اور حقوق العباد اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس حدیث میں بھی اسے کفر کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ گویا مومن کو جان بوجھ کر، بے گناہ قتل کرنا کفر کے مترادف ہے۔ أعاذنا اللہ۔ دوسرے گناہ تو نیکیوں کے تبادلے میں ختم ہو سکتے ہیں مگر یہ ایسا گناہ ہے کہ نیکیوں کے تبادلے میں بھی ختم نہ ہو سکے گا۔ إلا من رحم اللہ۔ کفر و شرک اور نفاق بھی ایسے ہی ہیں۔ البتہ کوئی شخص کفر کی حالت میں کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے تو اسلام لانے سے وہ گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ (مزید تفصیل آگے آ رہی ہے)۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 24 :
أخرجه أبو داود ( 4270 ) و ابن حبان ( 51 ) و الحاكم ( 4 / 351 ) و ابن عساكر
في " تاريخ دمشق " ( 5 / 209 / 2 ) من طريق خالد بن دهقان قال :
كنا في غزوة القسطنطينية بـ ( ذلقية ) فأقبل رجل من أهل فلسطين من أشرافهم
و خيارهم يعرفون ذلك له يقال له هانئ بن كلثوم بن شريك الكناني فسلم على عبد
الله بن أبي زكريا و كان يعرف له حقه قال لنا خالد : فحدثنا عبد الله ابن أبي
زكريا قال : سمعت أم الدرداء تقول : سمعت أبا الدرداء يقول : سمعت رسول
الله صلى الله عليه وسلم يقول : فذكره .
و السياق لأبي داود و قال الحاكم : " صحيح الإسناد " و وافقه الذهبي و هو كما
قالا ، فإن رجاله كلهم ثقات و قول الحافظ في خالد هذا : " مقبول " قصور منه
فإنه ثقة وثقه ابن معين و غيره كما ذكر هو نفسه في " التهذيب " .
و للحديث شاهد من حديث معاوية بن أبي سفيان مرفوعا به .
أخرجه النسائي ( 2 / 163 ) و الحاكم و أحمد ( 4 / 99 ) من طريق ثور عن أبي عون
عن أبي إدريس قال : سمعت معاوية يخطب فذكره .
و قال الحاكم : " صحيح الإسناد " . و وافقه الذهبي .
قلت : أبو عون هذا لم يوثقه غير ابن حبان و قد ترجمه ابن أبي حاتم ( 4 / 414 -
415 ) و لم يذكر فيه جرحا و لا تعديلا . و الحديث في ظاهره مخالف لقوله تعالى :
*( إن الله لا يغفر أن يشرك به و يغفر ما دون ذلك لمن يشاء )* لأن القتل دون
الشرك قطعا فكيف لا يغفره الله و قد وفق المناوي تبعا لغيره بحمل الحديث على ما
إذا استحل و إلا فهو تهويل و تغليظ . و خير منه قول السندي في حاشيته على
النسائي : " و كأن المراد كل ذنب ترجى مغفرته ابتداء إلا قتل المؤمن ، فإنه لا
يغفر بلا سبق عقوبة و إلا الكفر ، فإنه لا يغفر أصلا و لو حمل على القتل مستحلا
لا يبقى المقابلة بينه و بين الكفر ( يعني لأن الاستحلال كفر و لا فرق بين
استحلال القتل أو غيره من الذنوب ، إذ كل ذلك كفر ) . ثم لابد من حمله على ما
إذا لم يتب و إلا فالتائب من الذنب كمن لا ذنب له كيف و قد يدخل القاتل
و المقتول الجنة معا كما إذا قتله و هو كافر ثم آمن و قتل "
حضرت ابو ادریس بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خطبہ ارشاد فرماتے سنا، اور وہ اللہ کے رسول ﷺ سے بہت کم روایات بیان کرتے تھے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبے میں ارشاد فرماتے سنا: “امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف فرما دے مگر یہ کہ کوئی شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے یا کفر کی حالت میں فوت ہو جائے۔“
حدیث حاشیہ:
مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ قرآن مجید میں اس کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم، اللہ کا غصہ، لعنت او عذاب عظیم بتائی گئی ہے۔ کسی اور گناہ کی یہ سزا نہیں بتلائی گئی، اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایسے شخص کی توبہ بھی قبول نہیں۔ اسے مندرجہ بالا سزائیں بھگتنا ہوں گی۔ یا دنیا میں وہ قصاص دے دے، یعنی قصاصاً مار دیا جائے تو حد گناہ کو مٹا دیتی ہے ورنہ معاف نہ ہو گا۔ ویسے بھی یہ حقوق العباد میں سب سے اہم حق ہے اور حقوق العباد اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس حدیث میں بھی اسے کفر کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ گویا مومن کو جان بوجھ کر، بے گناہ قتل کرنا کفر کے مترادف ہے۔ أعاذنا اللہ۔ دوسرے گناہ تو نیکیوں کے تبادلے میں ختم ہو سکتے ہیں مگر یہ ایسا گناہ ہے کہ نیکیوں کے تبادلے میں بھی ختم نہ ہو سکے گا۔ إلا من رحم اللہ۔ کفر و شرک اور نفاق بھی ایسے ہی ہیں۔ البتہ کوئی شخص کفر کی حالت میں کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے تو اسلام لانے سے وہ گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ (مزید تفصیل آگے آ رہی ہے)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ ؓ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا (انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بہت کم حدیثیں روایت کی ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کر دے سوائے اس (گناہ) کے کہ آدمی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، یا وہ شخص جو کافر ہو کر مرے.“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ اس صورت میں ہے جب کہ یہ دونوں توبہ کئے بغیر مر جائیں، نیز آیت کریمہ: «وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ» یعنی: ”اللہ تعالیٰ شرک کے سوا دوسرے گناہ جس کے لیے چاہے معاف کر سکتا ہے۔“(سورة النساء: ۸) کی روشنی میں مومن کے قصد و ارادہ سے عمداً قتل کو بھی بغیر توبہ کے معاف کر سکتا ہے (جس کے لیے چاہے) محققین سلف کا یہی قول ہے (تفصیل کے لیے دیکھئیے حدیث رقم ۴۰۰۴ کا حاشیہ)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Idris said: "I heard Mu'awiyah delivering the Khutbah, and he narrated a few Hadiths from the Messenger of Allah(صلی اللہ علیہ وسلم)." He said: "I heard him delivering a Khutbah and he said: 'I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: Every sin may be forgiven by Allah except a man who kills a believer deliberately, or a man who dies as a disbeliever.