Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: Mentioning the Major Sins)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4009.
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ کے پاس اس حال میں حاضر ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہو، نماز پابندی کے ساتھ پڑھتا رہا ہو، زکوٰۃ (پوری کی پوری) دیتا رہا ہو اور کبیرہ گناہوں سے بچا رہا ہو، اس کے لیے جنت ہے۔“ لوگوں نے آپ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا (کہ وہ کون کون سے ہیں؟) تو آپ نے (بطور مثال) ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، مسلمان شخص کو قتل کرنا اور لڑائی کے دن بھاگ جانا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں دین کے بنیادی اصول اور ان کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ ان امور پر قائم رہنا اور ان کے منافی امور سے بچنا ہی جنت میں دخول کا سبب بن سکتا ہے۔ (2) ”اس کے لیے جنت ہے“ کیونکہ یہ نیکیاں باقی گناہوں پر غالب آ جائیں گی اور فیصلہ غالب کی بنیاد پر ہو گا ورنہ غلطی سے پاک تو کوئی شخص بھی نہیں۔ الا ما شاء اللہ۔ (3) اس حدیث میں صرف تین گناہوں کو کبیرہ کہا گیا ہے جبکہ قرآن و سنت کے دیگر دلائل سے اور بھی بہت سے گناہ کبیرہ قرار پاتے ہیں۔ یہ تین گناہ بطور مثال بیان کیے گئے ہیں بطور حصر نہیں، کیونکہ کبیرہ گناہ صرف یہی نہیں۔ کبیرہ گناہوں کی بابت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے استفسار کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے صرف مذکورہ تین گناہوں کا ذکر فرمایا ہے، اس موقع پر ان کے علاوہ اور کسی گناہ کا آپ نے نام نہیں لیا، ممکن ہے کہ اس جواب سے اس وقت آپ کا مقصد اسی بات کی طرف اشارہ فرمانا ہو کہ کبیرہ گناہ کسی خاص قسم یا کسی ایک صفت میں محصور نہیں بلکہ کسی معاملے میں حقوق اللہ کی تلفی کبیرہ گناہ ہوتی ہے تو کسی معاملے میں مسلم معاشرے کے مسلمان افراد کی حق تلفی کبیرہ گناہ ہوتی ہے اور اسی طرح کبھی کافروں کے ساتھ کوئی معاملہ درپیش ہو تو اس میں بھی آدمی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے، اس لیے ہر حال میں اور ہر موقع پر ایک مسلمان شخص کو انتہائی محتاط زندگی بسر کرنی چاہیے۔ (4) کبیرہ گناہوں سے بچنے کی وجہ سے صغیرہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ و اللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4020
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4020
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4014
تمہید کتاب
تمہید باب
گناہوں کا چھوٹا بڑا ہونا فطری امر ہے۔ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ان کی تعداد متعین نہیں۔ ہر وہ گناہ کبیرہ ہے جس پر کتاب و سنت میں جہنم کی وعید سنائی گئی ہو یا اس پر حد مقرر کر دی گئی ہو یا اس کے مرتکب کو ملعون قرار دیا گیا ہو یا اسے دین سے نکلنے کے مترادف قرار دیا گیا ہو یا اسے صراحتاً کبیرہ کہہ دیا گیا ہو یا وہ کسی کبیرہ گناہ کے برابر ہو یا اس سے بڑا ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بار بار کرنے سے صغیر گناہ کبیر ہو جاتا ہے۔ و اللہ اعلم۔
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ کے پاس اس حال میں حاضر ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہو، نماز پابندی کے ساتھ پڑھتا رہا ہو، زکوٰۃ (پوری کی پوری) دیتا رہا ہو اور کبیرہ گناہوں سے بچا رہا ہو، اس کے لیے جنت ہے۔“ لوگوں نے آپ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا (کہ وہ کون کون سے ہیں؟) تو آپ نے (بطور مثال) ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، مسلمان شخص کو قتل کرنا اور لڑائی کے دن بھاگ جانا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں دین کے بنیادی اصول اور ان کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ ان امور پر قائم رہنا اور ان کے منافی امور سے بچنا ہی جنت میں دخول کا سبب بن سکتا ہے۔ (2) ”اس کے لیے جنت ہے“ کیونکہ یہ نیکیاں باقی گناہوں پر غالب آ جائیں گی اور فیصلہ غالب کی بنیاد پر ہو گا ورنہ غلطی سے پاک تو کوئی شخص بھی نہیں۔ الا ما شاء اللہ۔ (3) اس حدیث میں صرف تین گناہوں کو کبیرہ کہا گیا ہے جبکہ قرآن و سنت کے دیگر دلائل سے اور بھی بہت سے گناہ کبیرہ قرار پاتے ہیں۔ یہ تین گناہ بطور مثال بیان کیے گئے ہیں بطور حصر نہیں، کیونکہ کبیرہ گناہ صرف یہی نہیں۔ کبیرہ گناہوں کی بابت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے استفسار کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے صرف مذکورہ تین گناہوں کا ذکر فرمایا ہے، اس موقع پر ان کے علاوہ اور کسی گناہ کا آپ نے نام نہیں لیا، ممکن ہے کہ اس جواب سے اس وقت آپ کا مقصد اسی بات کی طرف اشارہ فرمانا ہو کہ کبیرہ گناہ کسی خاص قسم یا کسی ایک صفت میں محصور نہیں بلکہ کسی معاملے میں حقوق اللہ کی تلفی کبیرہ گناہ ہوتی ہے تو کسی معاملے میں مسلم معاشرے کے مسلمان افراد کی حق تلفی کبیرہ گناہ ہوتی ہے اور اسی طرح کبھی کافروں کے ساتھ کوئی معاملہ درپیش ہو تو اس میں بھی آدمی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے، اس لیے ہر حال میں اور ہر موقع پر ایک مسلمان شخص کو انتہائی محتاط زندگی بسر کرنی چاہیے۔ (4) کبیرہ گناہوں سے بچنے کی وجہ سے صغیرہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ و اللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوایوب انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، نماز قائم کرتا ہے، زکاۃ دیتا ہے اور کبائر سے دور اور بچتا ہے۔ اس کے لیے جنت ہے“، لوگوں نے آپ سے کبائر کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شریک کرنا، کسی مسلمان جان کو (ناحق) قتل کرنا اور لڑائی کے دن میدان جنگ سے بھاگ جانا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کبیرہ: ہر اس گناہ کو کہتے ہیں جس کے مرتکب کو جہنم کے عذاب اور سخت وعید کی دھمکی دی گئی ہو ، ان میں سے بعض کا تذکرہ احادیث میں آیا ہے، اور جن کا تذکرہ لفظ کبیرہ کے ساتھ نہیں آیا ہے مگر مذکورہ سزا کے ساتھ آیا ہے، وہ بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ کبائر تین طرح کے ہیں: ( 1 ) پہلی قسم اکبر الکبائر کی ہے جیسے اشراک باللہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لائے ہیں اس کی تکذیب کرنا۔ ( 2 ) اور دوسرے درجے کے کبائر حقوق العباد کے تعلق سے ہیں مثلاً کسی کو ناحق قتل کرنا، دوسرے کا مال غصب کرنا اور ہتک عزت کرنا وغیرہ۔ (3) تیسرے درجے کے کبائر کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، مثلاً زنا اور شراب نوشی وغیرہ۔ (جیسے حدیث رقم ۴۰۱۷) میں کبائر کی تعداد سات آئی ہے، لیکن متعدد احادیث میں ان سات کے علاوہ کثیر تعداد میں دیگر گناہوں کو بھی کبیرہ کہا گیا ہے۔ اس لیے وہاں حصر اور استقصاء مقصود نہیں ہے ( دیکھئیے: فتح الباری کتاب الحدود ، باب رمی المحصنات)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Ayyub Al-Ansari narrated that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Whoever comes worshipping Allah and not associating anything with Him, establishing Salah, paying Zakah and avoiding major sins, Paradise will be his." They asked him about major sins and he said: "Associating others with Allah, killing a Muslim soul, and fleeing (from the battlefield) on the day of the march.