Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: The One Who Unsheathes His Sword and Starts to Strike the People With it)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4102.
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”آخر زمانے میں کچھ نو عمر، کم عقل لوگ ظاہر ہوں گے۔ وہ مخلوق میں سے بہترین شخص (حضرت محمد مصطفی ؓ) کی باتیں کریں گے۔ ان کا ایمان ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح شکار (کے جسم) سے تیر (صاف) نکل جاتا ہے۔ جب تمہاری ان سے ملاقات ہو تو انہیں (بے دریغ) قتل کرو کیونکہ ان کا قتل قتل کرنے والے کے لیے قیامت کے اجر و ثواب کا ذریعہ ہو گا۔“
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ اہل اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے والا واجب القتل ہے (الا یہ کہ وہ تائب ہو جائے)۔ (2) اس حدیث سے ایسے لوگوں کو زجر و توبیخ کرنا بھی ثابت ہوتا ہے جو قرآنِ مقدس کی ان تمام آیات اور ان احادیث رسول کے، صرف ظاہری معنیٰ مراد لیتے ہیں، نیز یہ بھی کہ ان کے ظاہری معنیٰ اجماعِ اسلام کے خلاف ہوتے ہیں۔ (3) دین میں غلو کرنے والوں کو تنبیہ کرنا بھی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح اس انداز کی عبادات سے بچنے کا درس بھی ملتا ہے جس کی اجازت شریعت نے نہیں دی اور جس میں شدت اور سختی کا پہلو نمایاں اور غالب ہو، حالانکہ شارع ﷺ کی لائی ہوئی شریعت انتہائی آسان، سہل اور ہر ایک مرد و زن کے لیے قابل عمل ہے۔ (4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں پر سختی کرنا اور ان کے ساتھ عداوت و نفرت رکھنا مستحب بلکہ ضروری ہے۔ (5) یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی عظیم دلیل بھی ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں کی اطلاع (بذریعۂ وحی) ان کے ظہور سے بھی پہلے دے دی تھی۔ (6) خارجیوں میں پائی جانے والی خرابیاں اگر آج بھی لوگوں میں پائی جائیں تو مذکورہ بالا شروط کے تحت انہیں قتل کرنا جائز ہو گا اور ان کے قاتل کے لیے روزِ قیامت اجر بھی ثابت ہو گا بشرطیکہ یہ کام امام عادل اور حاکم وقت کرے۔ (7) خارجی لوگ امتِ محمدیہ کے بدعتی گروہوں میں سے گندا اور بدترین بدعتی فرقہ ہیں۔ (8) اعتقادِ فاسد کی بنا پر امام عادل کے خلاف بغاوت کرنے والے، اس سے جنگ کرنے والے اور زمین میں شر اور فساد کرنے والے، نیز اسی طرح کے قبیح افعال کے مرتکب لوگوں کے خلاف قتال کرنا جائز ہے۔ و اللہ أعلم۔ (9) ”نو عمر اور کم عقل“ عموماً نوعمری میں عقل کم ہی ہوتی ہے۔ علم بھی پختہ نہیں ہوتا، جذبات غالب ہوتے ہیں۔ تجربہ وسیع نہیں ہوتا جبکہ علم عمر اور تجربہ و مطالعہ سے پختہ ہوتا ہے، اس لیے ”نوعمر“ عالم کو فتویٰ بازی سے پرہیز کرنا چاہیے، خصوصاً جبکہ اس کے فتاویٰ جمہور اہل علم اور اہل فتویٰ سے مختلف ہوں۔ نو عمر اور نو آموز لوگ شیطان کے جال میں جلدی پھنستے ہیں اور امت میں فتنے کا سبب بنتے ہیں۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْها۔ (10) ”مخلوق میں سے بہترین“ احادیث میں دو طرح کے الفاظ آئے ہیں: مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ۔ اور مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ۔۔ ترجمہ میں تو فرق ہے مگر نتیجہ ایک ہی ہے۔ اوپر حدیث میں ترجمہ پہلے الفاظ کے لحاظ سے کیا گیا ہے، دوسرے الفاظ کا ترجمہ یوں ہو گا: ”لوگوں کی بہترین باتیں۔“ اس سے مراد قرآن و احادیث ہی ہیں، یعنی وہ بات تو صحیح کریں گے مگراس کا مفہوم غلط سمجھیں گے۔ قرآن مجید کا صحیح مفہوم احادیث کی مدد سے اور احادیث کا صحیح مفہوم صحابہ کے طرز عمل اور فتاویٰ کی مدد سے سمجھنا چاہیے ورنہ گمراہی کا خطرہ ہے۔ و اللہ أعلم۔
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”آخر زمانے میں کچھ نو عمر، کم عقل لوگ ظاہر ہوں گے۔ وہ مخلوق میں سے بہترین شخص (حضرت محمد مصطفی ؓ) کی باتیں کریں گے۔ ان کا ایمان ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح شکار (کے جسم) سے تیر (صاف) نکل جاتا ہے۔ جب تمہاری ان سے ملاقات ہو تو انہیں (بے دریغ) قتل کرو کیونکہ ان کا قتل قتل کرنے والے کے لیے قیامت کے اجر و ثواب کا ذریعہ ہو گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ اہل اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے والا واجب القتل ہے (الا یہ کہ وہ تائب ہو جائے)۔ (2) اس حدیث سے ایسے لوگوں کو زجر و توبیخ کرنا بھی ثابت ہوتا ہے جو قرآنِ مقدس کی ان تمام آیات اور ان احادیث رسول کے، صرف ظاہری معنیٰ مراد لیتے ہیں، نیز یہ بھی کہ ان کے ظاہری معنیٰ اجماعِ اسلام کے خلاف ہوتے ہیں۔ (3) دین میں غلو کرنے والوں کو تنبیہ کرنا بھی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح اس انداز کی عبادات سے بچنے کا درس بھی ملتا ہے جس کی اجازت شریعت نے نہیں دی اور جس میں شدت اور سختی کا پہلو نمایاں اور غالب ہو، حالانکہ شارع ﷺ کی لائی ہوئی شریعت انتہائی آسان، سہل اور ہر ایک مرد و زن کے لیے قابل عمل ہے۔ (4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں پر سختی کرنا اور ان کے ساتھ عداوت و نفرت رکھنا مستحب بلکہ ضروری ہے۔ (5) یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی عظیم دلیل بھی ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں کی اطلاع (بذریعۂ وحی) ان کے ظہور سے بھی پہلے دے دی تھی۔ (6) خارجیوں میں پائی جانے والی خرابیاں اگر آج بھی لوگوں میں پائی جائیں تو مذکورہ بالا شروط کے تحت انہیں قتل کرنا جائز ہو گا اور ان کے قاتل کے لیے روزِ قیامت اجر بھی ثابت ہو گا بشرطیکہ یہ کام امام عادل اور حاکم وقت کرے۔ (7) خارجی لوگ امتِ محمدیہ کے بدعتی گروہوں میں سے گندا اور بدترین بدعتی فرقہ ہیں۔ (8) اعتقادِ فاسد کی بنا پر امام عادل کے خلاف بغاوت کرنے والے، اس سے جنگ کرنے والے اور زمین میں شر اور فساد کرنے والے، نیز اسی طرح کے قبیح افعال کے مرتکب لوگوں کے خلاف قتال کرنا جائز ہے۔ و اللہ أعلم۔ (9) ”نو عمر اور کم عقل“ عموماً نوعمری میں عقل کم ہی ہوتی ہے۔ علم بھی پختہ نہیں ہوتا، جذبات غالب ہوتے ہیں۔ تجربہ وسیع نہیں ہوتا جبکہ علم عمر اور تجربہ و مطالعہ سے پختہ ہوتا ہے، اس لیے ”نوعمر“ عالم کو فتویٰ بازی سے پرہیز کرنا چاہیے، خصوصاً جبکہ اس کے فتاویٰ جمہور اہل علم اور اہل فتویٰ سے مختلف ہوں۔ نو عمر اور نو آموز لوگ شیطان کے جال میں جلدی پھنستے ہیں اور امت میں فتنے کا سبب بنتے ہیں۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْها۔ (10) ”مخلوق میں سے بہترین“ احادیث میں دو طرح کے الفاظ آئے ہیں: مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ۔ اور مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ۔۔ ترجمہ میں تو فرق ہے مگر نتیجہ ایک ہی ہے۔ اوپر حدیث میں ترجمہ پہلے الفاظ کے لحاظ سے کیا گیا ہے، دوسرے الفاظ کا ترجمہ یوں ہو گا: ”لوگوں کی بہترین باتیں۔“ اس سے مراد قرآن و احادیث ہی ہیں، یعنی وہ بات تو صحیح کریں گے مگراس کا مفہوم غلط سمجھیں گے۔ قرآن مجید کا صحیح مفہوم احادیث کی مدد سے اور احادیث کا صحیح مفہوم صحابہ کے طرز عمل اور فتاویٰ کی مدد سے سمجھنا چاہیے ورنہ گمراہی کا خطرہ ہے۔ و اللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو کم سن اور کم عقل ہوں گے، بات چیت میں وہ لوگوں میں سب سے اچھے ہوں گے، لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، لہٰذا جب تم ان کو پاؤ تو انہیں قتل کرو کیونکہ ان کے قتل کرنے والے کو قیامت کے دن اجر ملے گا.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Ali said: "I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: 'At the end of time there will appear young people with foolish minds. Their faith will not pass through their throats, and they will go out of Islam as an arrow goes through the target. If you meet them, then kill them, for killing them will bring reward to the one who killed them on the Day of Resurrection.