Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Pledge Of Slaves)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4184.
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک غلام آیا اور اس نے ہجرت پر نبی اکرم ﷺ کی بیعت کر لی۔ نبی اکرم ﷺ کو علم نہیں تھا کہ وہ غلام ہے۔ کچھ دیر بعد اس کا مالک آگیا‘ وہ اسے لے جانا چاہتا تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”یہ غلام مجھے بیچ دے۔“ پھر آپ نے دوکالے غلام دے کر اس کو خریدا۔ اس کے بعد آپ کسی سے بیعت نہ لیتے حتیٰ کہ پوچھ لیتے: ”وہ غلام تو نہیں؟“
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مالک کی اجازت کے بغیر غلام کی بیعت ناجائز ہے۔ (2) یہ حدیث رسول اﷲ ﷺ کے عظیم مکارم اخلاق اور عام لوگوں کے ساتھ احسان کرنے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ نے غلام کو والپس کرنا پسند نہیں فرمایا تا کہ وہ آزردہ خاطر نہ ہو، نیز جس غرض کے لیے وہ آیا تھا اس میں بھی خلل واقع نہ ہو، چنانچہ آپ نے احسان عظیم فرماتے ہوئے اسے خرید لیا تاکہ اس کا مقصد پورا ہوجائے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ دو غلاموں کے بدلے ایک غلام کی بیع جائز ہے، خواہ قیمت ایک جیسی ہو یا قیمت کا فرق ہو۔ تمام جانوروں اور حیوانات کا حکم بھی یہی ہے۔ جمہور اہل علم اس بیع کے جواز کے قائل ہیں جبکہ امام ابو حنیفہ اور اہل کوفہ اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ (4) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نہ عالم الغیب تھے اور نہ آپ کو عطائی علم غیب حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس غلام کی بیعت قبول فرمالی جو اپنے آقا کی اجازت کے بغیر آگیا تھا۔ اسی طرح اس واقعے کے بعد آپ بیعت کی خاطر آنے والے ہر شخص سے پوچھا کرتے تھے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟ (5) رسول اﷲ ﷺ احتیاط پسند تھے، اسی لیے آپ بیعت کے لیے آنے والوں سے پوچھتے تھے۔ (6) غلام اپنی مرضی کا مالک نہیں ہوتا۔ وہ مالک کے حکم کا پابند ہوتا ہے لہٰذا غلام کا اسلام تو معبتر اور مقبول ہے مگر ہجرت اور جہاد وغیرہ کی بیعت معتبر نہیں۔ ممکن ہے مالک اسے اجازت نہ دے جیسا کہ مندرجہ بالا واقعہ میں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ نے اس کی بیعت ہجرت کی لاج رکھتے ہوئے اسے خرید لیا مگر ہر غلام کے ساتھ ایسے ممکن نہ تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4195
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4195
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4189
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک غلام آیا اور اس نے ہجرت پر نبی اکرم ﷺ کی بیعت کر لی۔ نبی اکرم ﷺ کو علم نہیں تھا کہ وہ غلام ہے۔ کچھ دیر بعد اس کا مالک آگیا‘ وہ اسے لے جانا چاہتا تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”یہ غلام مجھے بیچ دے۔“ پھر آپ نے دوکالے غلام دے کر اس کو خریدا۔ اس کے بعد آپ کسی سے بیعت نہ لیتے حتیٰ کہ پوچھ لیتے: ”وہ غلام تو نہیں؟“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مالک کی اجازت کے بغیر غلام کی بیعت ناجائز ہے۔ (2) یہ حدیث رسول اﷲ ﷺ کے عظیم مکارم اخلاق اور عام لوگوں کے ساتھ احسان کرنے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ نے غلام کو والپس کرنا پسند نہیں فرمایا تا کہ وہ آزردہ خاطر نہ ہو، نیز جس غرض کے لیے وہ آیا تھا اس میں بھی خلل واقع نہ ہو، چنانچہ آپ نے احسان عظیم فرماتے ہوئے اسے خرید لیا تاکہ اس کا مقصد پورا ہوجائے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ دو غلاموں کے بدلے ایک غلام کی بیع جائز ہے، خواہ قیمت ایک جیسی ہو یا قیمت کا فرق ہو۔ تمام جانوروں اور حیوانات کا حکم بھی یہی ہے۔ جمہور اہل علم اس بیع کے جواز کے قائل ہیں جبکہ امام ابو حنیفہ اور اہل کوفہ اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ (4) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نہ عالم الغیب تھے اور نہ آپ کو عطائی علم غیب حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس غلام کی بیعت قبول فرمالی جو اپنے آقا کی اجازت کے بغیر آگیا تھا۔ اسی طرح اس واقعے کے بعد آپ بیعت کی خاطر آنے والے ہر شخص سے پوچھا کرتے تھے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟ (5) رسول اﷲ ﷺ احتیاط پسند تھے، اسی لیے آپ بیعت کے لیے آنے والوں سے پوچھتے تھے۔ (6) غلام اپنی مرضی کا مالک نہیں ہوتا۔ وہ مالک کے حکم کا پابند ہوتا ہے لہٰذا غلام کا اسلام تو معبتر اور مقبول ہے مگر ہجرت اور جہاد وغیرہ کی بیعت معتبر نہیں۔ ممکن ہے مالک اسے اجازت نہ دے جیسا کہ مندرجہ بالا واقعہ میں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ نے اس کی بیعت ہجرت کی لاج رکھتے ہوئے اسے خرید لیا مگر ہر غلام کے ساتھ ایسے ممکن نہ تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ ایک غلام نے آ کر نبی اکرم ﷺ سے ہجرت پر بیعت کی، آپ یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ یہ غلام ہے، پھر اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے آیا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اسے میرے ہاتھ بیچ دو“، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی یہاں تک کہ آپ اس سے معلوم کر لیتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے.۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : غلام اپنے مالک کا تابع ہے، تو وہ کیسے ہجرت کر سکتا ہے اس لیے آپ غلاموں سے بیعت نہیں لیتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that jabir said: "A slave came and pledged to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) to emigrate, and the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) did not realize that he was a slave. Then his master came looking for him. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Sell him to me,' and he bought him for two black slaves. Then he did not accept the pledge from anyone until he asked: 'Is he a slave?