Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: Canceling The Pledge)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4185.
حضرت جابربن عبد اﷲ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اﷲ ﷺ کے دست مبارک پر قبول اسلام کی بیعت کی، پھر اس اعرابی کو مدینہ منورہ میں تپ چڑھ گیا۔ وہ رسول اﷲ ﷺ کے پاس آکر کہنے لگا: اے اﷲ کے رسول! مجھے میری بیعت واپس فرما دیجیے۔ آپ نے انکار کردیا، وہ دوبارہ آیا اور پھر کہنے لگا: میری بیعت واپس فرما دیجیے۔ آپ نے پھر انکار فرمایا۔ آخر وہ اعرابی (بلا اجازت) چلا گیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ منورہ بھٹی کی طرح ہے۔ میل کچیل کو نکالتا رہتا ہے اور خالص چیز کو باقی رکھتا ہے۔“
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے۔ باب کا مطلب ہے کہ بیعت توڑنے کا کیا حکم ہے؟ رسول اﷲ ﷺ کے عمل سے ثابت ہوا کہ یہ کام ناجائز اور حرام ہے۔ کسی شخص نے اسلام پر بیعت کی ہویا ہجرت پر دونوں صورتوں میں بیعت توڑنا درست نہیں۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے مدینہ طیبہ کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے کہ اسے اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسی بھٹی کی طرح بنایا ہے جو شرپسند لوگوں کو نکال باہرپھینکتا ہے جبکہ بیعت سے متعلق احکام ومسائل ابرارو اخیار لوگ اس میں سکون وقرار حاصل کرتے ہیں۔ (3) ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ سے نکل جانے والے لوگ مذموم ہیں۔ لیکن کلی طور پر یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت بڑی تعداد نے مدینہ کو خیر باد کہہ کر دوسرے مقامات پر بسیرا کر لیا تھا۔ بعد میں بھی کئی اصحاب العلم فضلاء نے مدینہ چھوڑا۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا مدینہ سے نکلنا مذموم ومکروہ ہے جنھیں مدینہ میں رہنا پسند، یعنی مدینہ سے کراہت اور بے رغبتی کرتے ہوئے اس سے نکل جائیں جیسا کہ اس اعرابی نے کیا تھا، تاہم جن لوگوں نے صحیح اور درست مقاصد کی خاطر مدینے کو خیر باد کہا، جیسے تبلیغ دین اور علم کی نشر واشاعت کے لیے، کفار و مشرکین کے علاقے فتح کرنے، سرحدوں کی حفاظت کرنے اور دشمنان دین واسلام کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور نہ یہ اعمال حدیث میں وارد مذمت کے مصداق ہی ہیں۔ (4) جب اسلام پھیل گیا تو بعض لوگ مالی مفادات کے حصول کے لیے بھی اسلام قبول کرنے لگے۔ اسلام لانے کے بعد اگر مال حاصل ہوتا رہتا تو اسلام پر قائم رہتے اور اگر کوئی تکلیف آ جاتی یا مال نہ ملتا تو دین سے طرگشتہ ہوجاتے۔ شاید یہ اعرابی بھی اسی قسم کا تھا۔ ممکن ہے اس نے ہجرت کی بھی بیعت کی ہو، پھر بخار سے گھبرا کر مدینہ چھوڑنا چاہتا ہو نہ کہ اسلام۔ (5) ”بھٹی کی طرح“ مدینہ منورہ میں رہ کر بہت سی جسمانی تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی تھیں۔ آب وہوا کی ناموافقت، فقر وفاقہ، اجنبیت، ہر وقت حملے لڑائی کا خطرہ اور وقتاََ فوقتاََ جنگوں میں شرکت جبکہ اسلحہ اور حفاظتی سامان بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہ ایسی چیزیں تھیں ناقص اور کمزور ایمان والا شخص برادشت نہیں کرسکتا تھا۔ اولوالعزم اور پختہ ایمان والے ہی ان آزمائشوں پرپورا اترتے تھے۔ (6) میل کچیل سے مراد ناقص الایمان اور منافق لوگ ہیں۔ ایسے لوگ مدینہ میں نہیں رہ سکتے مدینہ انھیں باہر نکال دیتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 379 :
أخرجه البخاري ( 4 / 77 ، 13 / 174 ، 258 ) و مسلم ( 9 / 155 ) و مالك
( 3 / 84 ) و النسائي ( 2 / 184 ) و الترمذي ( 4 / 373 ) و الطيالسي في
" مسنده " ( 2 / 204 ) و أحمد ( 3 / 292 ، 306 ، 307 ، 365 ، 385 ، 392 ، 393 )
عن جابر بن عبد الله .
" أن أعرابيا بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الإسلام فأصاب الأعرابي
وعك بالمدينة ، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله أقلني
بيعتي ، فأبى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم جاءه فقال : أقلني بيعتي ، فأبى
ثم جاءه فقال : أقلني بيعتي ، فأبى ، فخرج الأعرابي ، فقال رسول الله صلى الله
عليه وسلم ... " . فذكره .
و قال الترمذي : " حديث حسن " .
و له شاهد من حديث زيد بن ثابت رضي الله عنه أنه قال في هذه الآية ( فما لكم في
المنافقين فئتين ) قال :
" رجع ناس من أصحاب النبي يوم أحد ( و في رواية : من أحد ) ، فكان الناس فيهم
فريقين ، فريق منهم يقول : اقتلهم ، و فريق يقول : لا ، فنزلت هذه الآية ( فما
لكم في المنافقين فئتين ) ، فقال :
" إنها طيبة ، و إنها تنفي الخبث ، كما تنفي النار خبث الحديد ( صحيح الجامع ( 2331 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4196
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4196
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4190
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت جابربن عبد اﷲ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اﷲ ﷺ کے دست مبارک پر قبول اسلام کی بیعت کی، پھر اس اعرابی کو مدینہ منورہ میں تپ چڑھ گیا۔ وہ رسول اﷲ ﷺ کے پاس آکر کہنے لگا: اے اﷲ کے رسول! مجھے میری بیعت واپس فرما دیجیے۔ آپ نے انکار کردیا، وہ دوبارہ آیا اور پھر کہنے لگا: میری بیعت واپس فرما دیجیے۔ آپ نے پھر انکار فرمایا۔ آخر وہ اعرابی (بلا اجازت) چلا گیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ منورہ بھٹی کی طرح ہے۔ میل کچیل کو نکالتا رہتا ہے اور خالص چیز کو باقی رکھتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے۔ باب کا مطلب ہے کہ بیعت توڑنے کا کیا حکم ہے؟ رسول اﷲ ﷺ کے عمل سے ثابت ہوا کہ یہ کام ناجائز اور حرام ہے۔ کسی شخص نے اسلام پر بیعت کی ہویا ہجرت پر دونوں صورتوں میں بیعت توڑنا درست نہیں۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے مدینہ طیبہ کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے کہ اسے اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسی بھٹی کی طرح بنایا ہے جو شرپسند لوگوں کو نکال باہرپھینکتا ہے جبکہ بیعت سے متعلق احکام ومسائل ابرارو اخیار لوگ اس میں سکون وقرار حاصل کرتے ہیں۔ (3) ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ سے نکل جانے والے لوگ مذموم ہیں۔ لیکن کلی طور پر یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت بڑی تعداد نے مدینہ کو خیر باد کہہ کر دوسرے مقامات پر بسیرا کر لیا تھا۔ بعد میں بھی کئی اصحاب العلم فضلاء نے مدینہ چھوڑا۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا مدینہ سے نکلنا مذموم ومکروہ ہے جنھیں مدینہ میں رہنا پسند، یعنی مدینہ سے کراہت اور بے رغبتی کرتے ہوئے اس سے نکل جائیں جیسا کہ اس اعرابی نے کیا تھا، تاہم جن لوگوں نے صحیح اور درست مقاصد کی خاطر مدینے کو خیر باد کہا، جیسے تبلیغ دین اور علم کی نشر واشاعت کے لیے، کفار و مشرکین کے علاقے فتح کرنے، سرحدوں کی حفاظت کرنے اور دشمنان دین واسلام کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور نہ یہ اعمال حدیث میں وارد مذمت کے مصداق ہی ہیں۔ (4) جب اسلام پھیل گیا تو بعض لوگ مالی مفادات کے حصول کے لیے بھی اسلام قبول کرنے لگے۔ اسلام لانے کے بعد اگر مال حاصل ہوتا رہتا تو اسلام پر قائم رہتے اور اگر کوئی تکلیف آ جاتی یا مال نہ ملتا تو دین سے طرگشتہ ہوجاتے۔ شاید یہ اعرابی بھی اسی قسم کا تھا۔ ممکن ہے اس نے ہجرت کی بھی بیعت کی ہو، پھر بخار سے گھبرا کر مدینہ چھوڑنا چاہتا ہو نہ کہ اسلام۔ (5) ”بھٹی کی طرح“ مدینہ منورہ میں رہ کر بہت سی جسمانی تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی تھیں۔ آب وہوا کی ناموافقت، فقر وفاقہ، اجنبیت، ہر وقت حملے لڑائی کا خطرہ اور وقتاََ فوقتاََ جنگوں میں شرکت جبکہ اسلحہ اور حفاظتی سامان بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہ ایسی چیزیں تھیں ناقص اور کمزور ایمان والا شخص برادشت نہیں کرسکتا تھا۔ اولوالعزم اور پختہ ایمان والے ہی ان آزمائشوں پرپورا اترتے تھے۔ (6) میل کچیل سے مراد ناقص الایمان اور منافق لوگ ہیں۔ ایسے لوگ مدینہ میں نہیں رہ سکتے مدینہ انھیں باہر نکال دیتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر بیعت کی، پھر اس کو مدینے میں بخار آ گیا، تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میری بیعت توڑ دیجئیے۱؎ ، آپ نے انکار کیا، اس نے پھر آپ کے پاس آ کر کہا: میری بیعت توڑ دیجئیے، آپ نے انکار کیا، تو اعرابی چلا گیا ۲؎ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ تو بھٹی کی طرح ہے جو اپنی گندگی کو نکال پھینکتا ہے اور پاکیزہ کو اور خالص بنا دیتا ہے.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ وہ اس بیماری کو بیعت کی نحوست سمجھ بیٹھا تھا۔ ۲؎ : یعنی مدینہ سے چلا گیا، تاکہ اپنے خیال میں اس نحوست سے نجات پا جائے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی خلیفہ (حکمراں) سے خلافت کی بیعت، یا کسی خاص بات کو توڑنا جائز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Jabir bin 'Abdullah that: a Bedouin pledged Islam to the Messenger of Allah, then the Bedouin was stricken with the fever in Al-Madinah. So he came to the Messenger of Allah and said: "O Messenger of Allah, cancel my pledge," but he refused. Then he came to him again and said: "Cancel my pledge," but he refused. Then he came to him again and said: "Cancel my pledge," but he refused. Then the Bedouin left (Al-Madinah) and the Messenger of Allah sadi: "Al-Madinah his like the bellows; it expels its dross and brightness its good.