Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Minister Of The Imam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4204.
حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ میں نے اپنی پھوپھی (حضرت عائشہ ؓ) کو فرماتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص کسی کام کا ذمہ دار بنے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتری کا ارادہ فرمائے تو اس کے لیے اچھا وزیر مہیا فرما دیتا ہے۔ جو اس کو بھول جانے کی صورت میں اس کی ذمہ داری یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس کی (ذمہ داری کی ادائیگی میں) مدد کرتا ہے۔“
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ امام اور حاکم کے لیے اچھا، لائق و مخلص وزیر بنانا مشروع ہے تاکہ امارت کے اہم معاملات میں وہ امیر کا معاون و مددگار بنے اور امیر سے امارت کا کچھ بوجھ ہلکا کرے۔ (2) بعض امراء و حکام پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم اور اس کی خصوصی عنایت و رحمت ہوتی ہے کہ وہ ان کو سچے، سُچے، خالص اور کھرے وزیر عطا فرماتا ہے جو اس کے مخلص معاون اور ہمدرد و خیر خواہ ہوتے ہیں۔ امیر و امام اگر کوئی اہم بات بھول جائے تو وہ اسے یاد کراتے ہیں، اور اگر اسے یاد ہو تو اس سلسلے میں اس کا تعاون کرتے ہیں۔ (3) امیر و حاکم کو مطلق العنان قطعاً نہیں ہونا چاہیے کہ بغیر کسی کے صلاح و مشورے کے من مانے فیصلے کرے، محض اپنی رائے اور پسند کو ترجیح دے، اپنے آپ کو عقل کل سمجھے اور اپنی مرضی کی سیاست و سیادت اور حکمرانی کرے۔ ایسا کرنے سے رعایا کے بہت سے حقوق ضائع اور پامال ہوتے ہیں، بلکہ امیر و حاکم کو چاہیے کہ امین و دیانت دار، دین پر کاربند، پختہ فکر اور باعمل صاحب بصیرت و صاحب کردار وزیر و مشیر اپنائے جو اچھے مشوروں اور مثبت صلاحیتوں سے اس کی راہنمائی کریں۔ یہ معاملہ اس قدر اہم اور سنجیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو تمام تر اعلیٰ و افضل انسانی کمالات کے حامل، ذہانت و فطانت اور شرافت و نجابت کے بادشاہ تھے، نیز آپ کو وحیٔ الٰہی کی تائید بھی حاصل تھی، اس کے باوجود آپﷺ کو ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ﴾ کے امر سے حکماً مشاورت کا پابند کر دیا گیا۔ اس کے بعد تو اس مسئلے کی اہمیت کی بابت کسی مزید بات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ (4) ”وزیر“ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ بوجھ اٹھانے والے کے ہیں۔ مراد اس سے ساتھی اور معاون ہے۔ اچھا ساتھی اور معاون بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ صرف حاکم کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ذمہ دار کے لیے حتیٰ کہ خاوند کے لیے اچھی بیوی بھی۔
الحکم التفصیلی:
قلت : و هذا إسناد صحيح ، رجاله ثقات ، و قد صرح بقية بالتحديث فأمنا بذلك شر
تدليسه . و ابن أبي حسين اسمه عمر بن سعيد بن أبي حسين النوفلي المكي .
و له طريق أخرى عن القاسم ، يرويه الوليد بن مسلم حدثنا زهير بن محمد عن
عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله
صلى الله عليه وسلم :
" إذا أراد الله بالأمير خيرا جعل له وزير صدق ، إن نسي ذكره ، و إن ذكر أعانه
و إذا أراد الله به غير ذلك جعل له وزير سوء ، إن نسي لم يذكره ، و إن ذكر لم
يعنه " .
أخرجه أبو داود ( 2932 ) و ابن حبان في " صحيحه " ( 1551 - موارد ) من طريقين
عن الوليد به . و رجاله ثقات رجال الشيخين غير أن زهير بن محمد و هو أبو المنذر
الخراساني ضعيف من قبل حفظه .
قال الحافظ : " رواية أهل الشام عنه غير مستقيمة ، فضعف بسببها .
قال البخاري عن أحمد : كأن زهير الذي يروي عنه الشاميون آخر .
و قال أبو حاتم : حدث بالشام من حفظه فكثر غلطه " .
قلت : لكنه في هذا الحديث قد حفظ أو كاد ، فإنه لم يخرج فيه عن معنى حديث
بقية . و الله أعلم .
صحيح الجامع الصغير ( 6595
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4215
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4215
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4209
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ میں نے اپنی پھوپھی (حضرت عائشہ ؓ) کو فرماتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص کسی کام کا ذمہ دار بنے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتری کا ارادہ فرمائے تو اس کے لیے اچھا وزیر مہیا فرما دیتا ہے۔ جو اس کو بھول جانے کی صورت میں اس کی ذمہ داری یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس کی (ذمہ داری کی ادائیگی میں) مدد کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ امام اور حاکم کے لیے اچھا، لائق و مخلص وزیر بنانا مشروع ہے تاکہ امارت کے اہم معاملات میں وہ امیر کا معاون و مددگار بنے اور امیر سے امارت کا کچھ بوجھ ہلکا کرے۔ (2) بعض امراء و حکام پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم اور اس کی خصوصی عنایت و رحمت ہوتی ہے کہ وہ ان کو سچے، سُچے، خالص اور کھرے وزیر عطا فرماتا ہے جو اس کے مخلص معاون اور ہمدرد و خیر خواہ ہوتے ہیں۔ امیر و امام اگر کوئی اہم بات بھول جائے تو وہ اسے یاد کراتے ہیں، اور اگر اسے یاد ہو تو اس سلسلے میں اس کا تعاون کرتے ہیں۔ (3) امیر و حاکم کو مطلق العنان قطعاً نہیں ہونا چاہیے کہ بغیر کسی کے صلاح و مشورے کے من مانے فیصلے کرے، محض اپنی رائے اور پسند کو ترجیح دے، اپنے آپ کو عقل کل سمجھے اور اپنی مرضی کی سیاست و سیادت اور حکمرانی کرے۔ ایسا کرنے سے رعایا کے بہت سے حقوق ضائع اور پامال ہوتے ہیں، بلکہ امیر و حاکم کو چاہیے کہ امین و دیانت دار، دین پر کاربند، پختہ فکر اور باعمل صاحب بصیرت و صاحب کردار وزیر و مشیر اپنائے جو اچھے مشوروں اور مثبت صلاحیتوں سے اس کی راہنمائی کریں۔ یہ معاملہ اس قدر اہم اور سنجیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو تمام تر اعلیٰ و افضل انسانی کمالات کے حامل، ذہانت و فطانت اور شرافت و نجابت کے بادشاہ تھے، نیز آپ کو وحیٔ الٰہی کی تائید بھی حاصل تھی، اس کے باوجود آپﷺ کو ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ﴾ کے امر سے حکماً مشاورت کا پابند کر دیا گیا۔ اس کے بعد تو اس مسئلے کی اہمیت کی بابت کسی مزید بات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ (4) ”وزیر“ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ بوجھ اٹھانے والے کے ہیں۔ مراد اس سے ساتھی اور معاون ہے۔ اچھا ساتھی اور معاون بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ صرف حاکم کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ذمہ دار کے لیے حتیٰ کہ خاوند کے لیے اچھی بیوی بھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی کسی کام کا ذمہ دار ہو جائے پھر اللہ اس سے خیر کا ارادہ کرے تو اس کے لیے ایسا صالح وزیر بنا دیتا ہے کہ اگر وہ بھول جائے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس کی مدد کرتا ہے.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Al-Qasim bin Muhammad said: " I heard my paternal aunt say: 'The Messenger of Allah (ﷺ) said; "Whoever among you is appointed to a position of authority. If Allah wills good for him. He will give him a righteous minister who will remind him if he forgets and help him if he remembers.