باب: طہارت(وضو اور غسل)میں دائیں طرف کو ترجیح دینا
)
Sunan-nasai:
The Book of Ghusl and Tayammum
(Chapter: Starting With The Right When Purifying Oneself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
421.
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ جہاں تک ممکن ہوتا اپنے وضو اور غسل فرماتے، جوتا پہننے، کنگھی کرنے میں دائیں طرف کو پسند فرماتے تھے۔ (شعبہ نے کہا کہ میرے استاد اشعث نے کئی بار یہ حدیث بیان کی) اس نے واسط (شہر) میں (یہ حدیث بیان کی تو) کہا: (آپ ﷺ کو) تمام امور میں (دائیں جانب سے ابتدا کرنا پسند تھا)۔
تشریح:
جوتا پہننا اور کنگھی کرنا اگرچہ عبادات میں داخل نہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں بھی دائیں جانب کو اختیار کرنا پسند فرمایا۔ بعض لوگ عادات اور عبادات میں فرق کرتے ہیں اور عادات میں اتباع رسول کو صرف مستحسن قرار دیتے ہیں، ضروری نہیں سمجھتے، لیکن محدثین دونوں ہی میں اتباع کو ضروری سمجھتے ہیں، الا یہ کہ وہ عادات صرف خصوصی ماحول کا نتیجہ یا آپ کے خاص مزاج و طبیعت کا حصہ ہوں۔ مزید دیکھیے حدیث 112 اور اسکے فوائد۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
420
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
419
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
421
تمہید کتاب
امام نسائی نے طہارت سے متعلق احکام و مسائل بیان کرتے ہوئے آخر میں غسل اور تیمّم کے مسائل بیان کیے ہیں ۔ طہارت میں غسل بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی انسان (مرد وعورت) جنبی ہو جائے یا کوئی عورت حیض یا نفاس سے فارغ ہو جائے تو شریعت کی رو سے وہ اس وقت تک نماز وغیرہ ادا نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ مسنون طریقے سے غسل نہ کر لیں۔ ذیل میں ہم نے غسل ہی سے متعلق احکام و مسائل قدرے تفصیل سے بیان کیے ہیں تا کہ قارئین غسل کے جملہ مسائل ایک ہی جگہ ملاحظ فرما سکیں۔٭غسل کی لغوی تعریف غسل باب غسل يغسل بروزن ضرب يضرب سے مصدر ہے‘لیکن یہ یادر ہے کہ غین پر زبر پڑھنے کی صورت میں مصدر ہو گا جس کے معنی’’ دھونا ہیں‘‘ اور غین پر پیش پڑھنے کی صورت میں علم ہو گا جس کے معنی’’ غسل کرنا‘‘ ہیں۔٭غسل کی اصطلاحی تعریف مخصوص شرائط اور ارکان کے ساتھ پاک پانی سے پورے جسم کودھونا ۔ دیکھیے : (الموسوعة الفقهية:31/ 194 )٭غسل کن صورتوں میں واجب ہوتا ہے: جنابت یعنی سوتے یا جاگتے ہوئے مادہ ٔ منویہ خارج ہونے کی وجہ سے جیسا کہ حضرت علی سے مروی ہے کہ میں نے نبیﷺ سے مذی کے متعلقدریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”مذی سے وضو ہے اور منی سے غسل ہے۔ دیکھیے : (جامع الترمذي الطهارة حديث: 114و سنن ابن ماجه الطهارة حديث:504) نیز حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ ام سلیم ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالی حق سے حیا نہیں فرماتا میں معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ جب عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر بھی غسل واجب ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! جب وہ پانی(مادہ منویہ )دیکھے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : (صحيح البخارية العلم حديث: 130و صحیح مسلم الحيض حديث: 313) نیز حضرت خولہ بنت حکیم ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا کہ اگر عورت خواب میں وہی دیکھے جو کچھ مرد دیکھتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اس پرغسل فرض نہیں جب تک اسے انزال نہ ہو۔ جس طرح مرد پرغسل واجب نہیں جب تک اسے انزال نہ ہو دیکھیے : (مسند أحمد: 2/409) بنابریں معلوم ہوا کہ جنابت کی وجہ سے غسل واجب ہو جاتا ہے تا ہم اگر کوئی خواب میں احتلام دیکھے لیکن نمی یا پانی محسوس نہ کرے تو اس پرغسل واجب نہیں۔ اور جونمی اور پانی محسوس کرے چاہے اسے احتلام کا ہونا یا د نہ رہے اس پر غسل واجب ہے جیسا کہ حضرت خولہ بنت حکیم کی روایت سے واضح ہے۔٭مباشرت کی وجہ سے بھی غسل واجب ہے خواہ انزال نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:’’جب آدمی عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے اور اس سے مشغول ہو تو اس پر غسل واجب ہو گیا۔‘‘(صحيح البخاري، الغسل حديث: 291، وصحيح مسلم الحيض حدیث: 348) میں مسلم میں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ خواہ انزال نہ بھی ہوصرف دخول ہی سے غسل واجب ہو جاتا ہے۔ دیکھیے :(صحیح مسلم الحيض حديث:348) اسی مفہوم کی ایک حدیث حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جب ختنہ (مردکے آلہ تناسل کا حشفہ) ختنے (عورت کی شرم گاہ) میں داخل ہو جائے تو غسل واجب ہو گیا ‘‘(جامع الترمذي، الطهارة حديث:109) ایک روایت میں[ مس الختان الختان ] کے الفاظ ہیں ‘ یعنی جب ختنہ ختنے سے چھو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ لیکن یادر ہے کہ ختنہ ملنے سے مراد دخول ہےاور یہ الفاظ جماع سے کنایہ ہیں۔ بنابر یں جملہ احادیث کو جمع کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مباشرت کرنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے چاہے انزال نہ بھی ہوا ہو۔ والله اعلم۔حیض اور نفاس سے فارغ ہونے پربھی غسل واجب ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: (وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ)البقرة 2/222) ’’ (اے نبی!) لوگ آپ سے حیضکے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ دیجیے:وہ تو گندگی ہے۔ تم حیض ( کی حالت )میں عورتوں سے الگ رہو اور ان سے ہم بستری نہ کرو یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں۔ پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو انکے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے۔ ‘‘حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ فاطمہ بنت ابوحبیش ؓ نبی اکرم ﷺکے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! مجھے استحاضے کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے حیض نہیں۔ جب حیض کے دن آئیں تو نماز چھوڑ دیا کرو اور جب ایام حیض ختم ہو جائیں تو خون کو دھو کر نماز پڑھا کرو۔“ (صحيح البخاري، الحيض، حدیث:306)علامہ شیرازی خون نفاس کی بابت لکھتے ہیں کہ نفاس کا خون آنے سے غسل لازم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ دراصل حیض ہی ہوتا ہے جو جمع شدہ ہوتا ہے اسی وجہ سے اس میں روزہ بھی نہیں رکھا جا سکتا اور مباشرت بھی حرام ہے اور فرض نماز یں بھی اس میں ساقط ہیں۔ الغرض نفاس سے غسل اسی طرح واجب ہے جس طرح حیض سے۔ مزید دیکھیے : (المهذب: 2/167)امام نووی نے اس کی بابت لکھتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ حیض اور نفاس سے غسلواجب ہے۔ دیکھیے : (المجموع: 2/168)حیض ‘ نفاس اور استحاضے سے متعلق تفصیلی احکام و مسائلكتاب الحيض والاستحاضة کے ابتدائیہ میں گزر چکے ہیں۔غسل جنابت کا طریقہ غسل جنابت کرتے ہوئے ارکان غسل اور سنن غسل کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ ارکان غسل:1۔نیت: حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہےاور ہرشخص کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔ ‘‘(صحیح البخاري بدء الوحي، حديث:1)2۔ پورے بدن پر پانی بہانا۔ غسل کی سنتیں: 1۔ تین بار ہاتھ دھونا۔ 2۔ شرم گاہ دھونا۔3۔ نماز کی طرح وضو کرنا سوائے پاؤں دھونے کے۔ لیکن اگر پانی غسل کرنے کی جگہ پر نہ ٹھہرتا ہو تو پاؤں ساتھ بھی دھوئے جا سکتے ہیں ۔ 4۔سر پر تین بار پانی ڈالنا اور بالوں کا خلال کرنا تا کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے ۔5۔ پورے جسم پر پانی بہاتے وقت پہلے دائیں جانب پانی ڈالنا اس کے بعد بائیں جانب ڈالنا۔ اس کی دلیل اورغسل جنابت کا طریقہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺغسل جنابت کرتے تو پہلے اپنے ہاتھ دھوتے تھے پھر اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالتے اور شرم گاہ دھوتے اور پھر نماز والا وضوکرتے۔ پھر پانی لے کر بالوں کی جڑوں میں انگلیاں پھیرتے حتی کہ جب آپ سمجھتے کہ پانی بالوں کی جڑوں تک بچ گیا ہے تو پھر سر پر تین لپ پانی ڈالتے اس کے بعد اپنے پورے جسم پر پانی بہاتے اور بعدازاں پاؤں دھو لیتے تھے۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 248) اسی طرح حضرت میمونہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے پھر شرم گاہ کو دھویا پھر بایاں ہاتھ جس سے شرم گاہ کو دھویا تھا زمین پر رگڑا پھر اس کو دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر چہرہ دھویا پھر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے پھر سر پر (تین لپ) پانی ڈالا اور بالوں کی جڑوں تک پہنچایا اس کے بعد تمام بدن پر پانی بہایا۔ اور اس کے بعد جہاں آپ نے غسل کیا تھا اس جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 257،259) ٭ مرد اور عورت کے غسل میں فرق : مرد اور عورت کے غسل کا طریقہ ایک ہی ہے کہ پہلے وضو کریں اور پھر پورے جسم پر پانی بہا دیں جیسا کو تفصیل اوپر گزر چکی ہے تاہم غسل جنابت میں عورت کو اجازت ہے کہ اگر اس کے بال گندھے ہوئے ہوں یا مینڈھیاں بنائی ہوئی ہوں تو انھیں کھولے بغیر ہی تین چلو سر پر ڈال لئے البتہ حیض اور نفاس سے پاک ہو کر غسل کرنے کی صورت میں عورت کے لیے بال کھولنا ضروری ہے جیسا کہ حضرت عائشہ جنت سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں بال کھولنے کا حکم دیا ہے۔ دیکھیے :(سنن ابن ماجه الطهارة حديث: 641) نیز اس بات پراجماع بھی ہے کہ غسل میں بدن کے تمام اعضاء و اجزاء کو دھونا واجب ہے اور یکم مرد و عورت ہر دو کے لیے ہے اور اس میں بالوں کادھونا بھی آتا ہے۔ اس حدیث اور اس مفہوم کی دیگر احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت غسل حیض میں مینڈھیاں وغیرہ کھولے گی۔ رہی صحیح مسلم کی وہ حدیث جس میں غسل حیض میں بھی بال نہ کھولنے کی رخصت ہے تو محققین اس کی بابت لکھتے ہیں کہ غسل حیض میں مینڈھیاں اور بال نہ کھولنے والے الفاظ شاذ ہیں جیسا کہ صاحب عون المعبود اور شیخ البانی نے اس کی صراحت کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : (عون المعبود، وسلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني، حدیث:188) نیز سعودی مفتیان عورت کے غسل حیض میں بال کھولنے کی بابت لکھتے ہیں کہ افضل یہ ہے کہ احتیاط کے طور پر عورت غسل حیض میں بالوں کو کھول لے۔ اس سے اختلاف بھی ختم ہو جائے گا اور تمام دلائل میں تطبیق بھی ہو جائے گی ۔ دیکھیے : (فتاوی اسلامیہ (اردو) جلد اول ص :287 ، طبع دار السلام) ‘بنابریں راجح اور درست بات یہی ہے کہ عورت غسل حیض میں ضرور بال کھولے تا ہم غسل جنابت میں اسے رخصت ہے۔ والله أعلم.غسل جنابت میں سرکا مسح نہیں ہے بلکہ تین چلو پانی ڈال کر اچھی طرح خلال کرنا ہے نیز میاں بیوی اکٹھے اور ایک ہی برتن سے پانی لے کر غسل کر سکتے ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہﷺ ایک ہی برتن سے نہاتے اور دونوں اس سے چلو بھر بھر کر لیتے تھے۔ دیکھیے : (صحيح البخاري الغسل حديث: 273) مزید تفصیل کے لیے سنن نسائی کی کتاب المیاہ کا ابتدائیہ دیکھیے جس میں سال کے لیے پانی وغیرہ سے متعلق احکام بانفصیل بیان کیے گئے ہیں۔٭غسل جنابت کے دوران میں کیے جانے والے وضو کا حکم : حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺغسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔ دیکھیے : (جامع الترمذي، الطهارة حديث : 107) یعنی رسول اللہ ﷺ غسل کے شروع میں جو وضو کرتے تھے اسی کو کافی سمجھتے تھے اور نماز وغیرہ کے لیے دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ دوران نسل میں شرم گاہ کو آگے پیچھے) ہاتھ نہ لگے ورنہ دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا ۔ والله أعلماسلام قبول کرنے والے نومسلم کے لیے بھی غسل واجب ہے۔ حضرت قیس بن عاصم سے مروی ہے کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں اسلام قبول کرنا چاہتا تھا۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں غسل کروں اور پانی میں بیری کے پتے ملے ہوئے ہوں ۔ (سنن أبي داود الطهارةحدیث: 355) تفصیل کے لیے دیکھیے :(عون المعبود‘ شرح حدیث مذکور)جمعہ کے لیے بھی غسل واجب ہے۔ حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے رسول اللہ ا نے فرمایا:’’جمعہ کے روز غسل کرنا ہر بالغ پر واجب ہے۔“ ((صحيح البخاري الجمعة حديث: 895) نیز حضرت میمونہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” ہر بالغ پر جمعہ کے لیے جانا لازم ہے اور ہر وہ شخص جس پر جمعہ کے لیے جانا لازم ہے اس غسل (بھی لازم ہے۔“ ((سنن النسائي الجمعة حدیث: 1372) اہل علم کے ایک گروہ نے ان احادیث اور اس مفہوم کی دیگر احادیث سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جمعہ کےغسل واجب ہے۔ کسی بھی مسلمان بالغ مرد وعورت کو بغیر معقول عذر کے اس بارے میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ اہل علم کا ایک دوسرا گروہ سید ناسمرہ سے مروی حدیث ‘جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس نے وضو کیا اس نے سنت پرعمل کیا اور یہ بہت عمدہ سنت ہے اور جسنے غسل کیا تو یہ افضل ہے۔ (جامع الترمذي، الجمعة، حديث:497) اور حضرت ابن عباس کے قول جس میں انھوں نے جمعہ کے غسل کی ابتدا کی وجہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت لوگ اونی کپڑے پہنتے تھے اور موسم بھی گرم ہوتا تھا اس وجہ سے انھیں پسینہ وغیرہ آتا تھا اس لیے رسول اللهﷺ نے انھیں غسل کا حکم دیا تھا۔ اب چونکہ یہ سب علتیں ختم ہو چکی ہیں‘ یعنی لوگ لباس موسم کے مطابق پہنتے ہیں اور مسجد یں بھی کشادہ ہوگئی ہیں لہذا اب نسل کی چنداں ضرورت نہیں۔ (مسند أحمد: 1/268)سے استدلال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غسل جمعہ واجب نہیں ہے بلکہ مسنون مستحب اور مؤکد ہے۔ لیکن راجح اور حق بات یہ ہے کہ غسل جمعہ واجب ہے جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں مذکور ہے نیز ایک دوسری حدیث میں مروی ہے حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ نے انھیں خبر دی کہ حضرت عمر بن خطاب جو ایک دفعہ خطبہ جمعہ ارشادفرمارہے تھے کہ ایک آدمی آیا تو حضرت عمرنے کہا: کیا تم لوگ نماز سے رکھتے ہو (اور تاخیر سے آتے ہو؟) اس آدمی نے جواب دیا: اس کے سوا کچھ نہیں ہوا کہ میں نے اذان سنی تو فورأ وضو کیا اور حاضر ہو گیا۔ ) تو حضرت عمر اٹھا نے کہا: صرف وضو؟ کیا تم لوگوں نے رسول اللہ کا کا یہ ارشاد نہیں سنا:” جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو وہ غسل کرے۔“ (صحيح البخاري، الجمعة حديث:882) اس حدیث میں مذکور دوران خطبہ میں تاخیرسے آنے والے حضرت عثمان تھے۔ اور حضرت عمر کا حضرت عثمان جیسی شخصیت کو بر سرمنبر اَجلہ صحابہ کی موجودگی میں اس طرح تنبیہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ بالعموم غسل جمع کو واجب سمجھتے تھے۔ اگر یہ مستحب ہوتا تو اس انداز میں ہرگز تنبیہ نہ کی جاتی۔بلاشبہ ابتداء غسل جمعہ کے حکم کی بنیادی وجہ وہی تھی جو حضرت ابن عباس نے بیان فرمائی ہے۔ لیکن جب مسلمان اس کے قائل و فاعل ہو گئے تو انھیں اس کا شرعی اعتبار سے پابند کر دیا گیا جیسا کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ اب اگر چہ وہ بنیادی سبب موجود نہیں مگر حکم وجوب باقی ہے جیسا کہ مسئلہ حج میں طواف قدوم میں رمل کرنے (آہستہ آہستہ دوڑنے) کا بنیادی سبب موجود نہیں مگر حکم وجوب باقی ہے اس لیے راجح یہی ہے کہ غسل جمعہ واجب ہے۔ اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور اس میں غفلت بہت بڑی محرومی ہے۔ والله أعلم غسل جمعہ کے بعد ان احوال کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں غسل کرنا مسنون یامستحب ہے۔٭ عیدین کے لیےغسل : نماز عید کے لیے جانے سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔ امام ابن قدامہ بیان کرتے ہیں کہ عید کے لیے غسل کرنا مستحب ہے۔ (المغني لابن قدامة: 3/256) علاوہ ازیں امام مالک حضرت نافع سے بیان کرتے ہیں کہ بے شک حضرت عبداللہ بن عمر عید الفطرکے دن عید گاہ جانے سے قبل غسل کیا کرتے تھے۔ (الموطأ للإمام مالك العيدين باب العمل في غسل العيدين حديث:436) امام عبدالرزاق مذکورہ روایت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:[ و أنا أفعله] ’’اور میں بھی عید کے روز غسل کرتا ہوں‘‘ ۔ دیکھیے : (مصنف عبدالرزاق : 3/309) نیز حضرت عبداللہ بن عمر کی بابت معروف ہے کہ وہ متبع سنت تھے ‘بنابریں وہ جونماز عید سے قبل غسل کیا کرتے تھے ہوسکتا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ملا کو ایسے کرتے دیکھا ہو۔ اور بعد میں اس پرمل شروع کر دیا ہو۔ والله أعلم.رسول اللہ ﷺسے غسل عیدین کی بابت صریحاً مرفوع کوئی حدیث مروی نہیں ہے۔ البتہ سنن ابن ماجہ کی روایت سے اس کا استحباب معلوم ہوتا ہے جس میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’يقينا جمعہ کے دن کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے عید بنایا ہے ‘چنانچہ جوشخص جمعہ کے لیے آئے اس کو چاہیے کہ غسلکرے اور اگر خوشبو میسر ہوتو استعمال کرے اور مسواک کرے۔“ ((سنن ابن ماجه إقامة الصلوات حديث :1098) مذکورہ حدیث میں جب جمعہ کے دن غسل خوشبو اور مسواک کرنے کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جمعہ اللہ تعالی نے اہل اسلام کے لیے عید بنایا ہے تو عید کے دن تو ان تینوں کاموں کا کرنا اور زیادہ ضروری اور پسندیدہ ہو گا - والله أعلم٭احرام باندھنے سے قبل غسل : احرام باندھنے سے پہلے غسل کرنا مسنون اور مستحب ہے۔ حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں میں نے دیکھا کہ نبی ﷺنے احرام کے لیے اپنے کپڑے اتار دے اور غسل فرمایا۔ دیکھیے : (جامع الترمذي، الحج حديث : 830)٭ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا غسل : مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت غسل کرنا مسنون اور مستحب ہے۔ حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر جب بھی مکہ مکرمہ آتے تھے تو وادئ ذی طویٰ میں رات گزارتے صبح ہو جاتی تو غسل کرتے ‘پھر دن چڑھے مکہ میں داخل ہوتے اور فرمایا کرتے تھے کہ نبی ﷺ نے اسی طرح کیا تھا۔ دیکھیے :(صحیح مسلم الحج، حدیث :1259)٭میت کوغسل دینے والے کاغسل : حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے رسول الله ﷺنے فرمایا: ’’جوشخص کسی میت کو نہلائے تو وہ غسل کرے۔“ ((سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3162) نیز حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ تم پر میت کوغسل دینے سے کوئی غسل واجب نہیں کیونکہ تمھاری میت طاہر ہوتی ہے نجس نہیں‘ لہذا تمھارے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ دھو لو۔ ‘‘ (السنن الكبرى للبيهقي، حديث: 3/ 398) مذکورہ دونوں احادیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جو شخص میت کوغسل دے اس کے لیے نہانا مستحب ہے ضروری نہیں جیسا کہ حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ ہم میت کوغسل دیتے تو ہم میں سے بعض لوگ غسل کرتے اور بعض نہ کرتے۔ (السنن الكبرى للبيهقي:1/306) حافظ ابن حجر نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے : (أحكام الجنائز و بدعها للألباني مسئله:31)٭مستحاضہ کاغسل: وہ عورت جسے استحا ضے کا عارضہ لاحق ہو اس کے لیے ہرنماز کے لیے غسل کرنا یاظہر اور عصر کے لیے ایک غسل کرنا اور مغرب اور عشاء کے لیے ایک غسل کرتا اور فجر کے لیے ایک غسلکرنا مستحب ہے جیسا کہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! فاطمہ بنت ابوحبیش کو اتنے اتنے دنوں سے استحاضہ ہے اور اس نے نماز نہیں پڑھی تو آپ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ! یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ اسے چاہیے کہ ٹب میں بیٹھے اگر پانی پر زردی غالب ہو تو چاہیے کہ ظہر اور عصر کے لیے ایک غسل کرے اور مغرب اور عشاء کے لیے ایک غسل کرے اور فجر کے لیے ایک غسل کرے اور ان کے مابین وضو کرے‘ دیکھیے : (سنن أبي داود الطهارة حديث:296) بنابریں اس حدیث اور اس کے ہم معنی دیگر احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نماز کے لیے غسل یا دو نمازوں کے لیے غسل‘ استحباب کے معنی میں ہے لیکن بہتر ہے ضروری نہیں۔ نیز جمہور علما ءکا بھی یہی موقف ہے۔ والله أعلم.٭مشرک اور کافر کو دفن کرنے کے بعد غسل: کسی مشرک اور کافرکو دفن کرنے کے بعد غسل کرنا مستحب اور مسنون ہے جیسا کہ حضرت علی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کوخبر دی کہ آپ کا بوڑھا گمراہ چچا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا:’’ جاؤ اور اپنے والد کو زمین میں دبا آؤ‘ تو پھر کوئی کام نہ کرنا حتی کہ میرے پاس آ جانا ۔ چنانچہ میں گیا اور اسے زمین میں دبا آیا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ نے مجھے حکم دیا تو میں نے غسل کیا۔ اور آپ نے میرے لیے دعا فرمائی۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حديث: 3214، وسنن النسائي الجنائز، حدیث:2008) بنابر یں معلوم ہوا کہ مشرک اور کافر وغیرہ کو دفن کرنے کے بعد غسل کرنا مسنون اور مستحب ہے۔ والله أعلم٭ ایک بیوی کے بعد دوسری بیوی سے مباشرت کرنے سے قبل غسل : حضرت ابورافع سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک بار اپنی ازواج کے پاس آئے اور ہر ایک کے ہاں غسل کیا۔ ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ (آخر میں )ایک ہی غسل نہیں کر لیتے ؟ آپ نے فرمایا: یہ زیادہ پاکیزہ عمدہ اور طہارت کا باعث ہے۔ ‘‘(سنن أبي داود الطهارة حديث219 و سنن ابن ماجه الطهارة حديث:590)غسل کرتے وقت جہاں مذکورہ باتوں کا خیال اور لحاظ رکھنا ضروری ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ غسل کرتے وقت پردے کا بھی اہتمام کیا جائے ۔ دلائل سے واضح ہے کہ عورت کا پورا جسم عورۃ ہے اورمرد کا ناف سے لے کر گھٹنے تک ۔ بنابریں غسل کرتے وقت پردے کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔آج کل ہمارے ہاں سیر و تفریح کے نام سے بعض تفریحی پارکوں میں عورتوں اور بچیوں کے نہانے کے لیے تالاب اور حوض وغیرہ بنائے گئے ہیں جو کہ سراسر بے حیائی پھیلانے کے مترادف ہے لہذا ان میں نہانے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ عورت اگر کپڑوں سمیت بھی ان میں نہائے تو اس کے جسم کے وہ خدوخال نظر آتے ہیں جنھیں شریعت میں ڈھاپنے اور پردے میں رکھنے کا حکم ہے تا ہم غسل خانے وغیرہ میں مرد وعورت اپنے کپڑے وغیرہ اتار سکتے ہیں کیونکہ وہاں بے پردگی کا خطرہ نہیں ہوتا۔ و الله أعلم غسل کے پانی کی بابت تفصیلی احکام ومسائل کے لیے دیکھیے سنن النسائی کی کتاب المیاه کا ابتدائیہ۔تیمم سے متعلق احکام و مسائلاسلامی شریعت کی بنیاد چونکہ آسانی اور سہولت پر ہے اس لیے اللہ تعالی نے عذر میں مبتلا لوگوں کے لیے عبادات کے ادا کرنے میں حسب عذرتخفیف کر دی ہے تا کہ وہ کسی حرج اور مشقت کے بغیر عبادات کی ادائیگی کر سکیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:( وما جعل عليكم فی الدين من حرج) (الحج 22: 78) ’’اور اس (اللہ تعالی) نے تم پر دین (کی کسی بات )میں تنگی نہیں کی ۔ نیز فرمایا:(يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ) (البقرۃ:2/185)’ ’اللہ تعالی تمھارے حق میں آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا۔‘‘ نیز رسول اللہﷺ نے بھی فرمایا: ’’دین آسان ہے۔“ (صحيح البخاري، الإيمان حدیث: 39) اسی آسانی اور سہولت کے پیش نظر شریعت اسلامیہ نے پانی دستیاب نہ ہونے یا اس کے استعمال پر عدم قدرت کی صورت میں تیمم کی سہولت بہم پہنچا کر امت مسلمہ کے لیے بہت بڑی آسانی فراہم کر دی ہے۔تیمم کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں جبکہ شرعی اصطلاح میں نماز وغیرہ کو مباح کرنے کیغرض سے چہرے اور ہاتھوں پر ملنے کے لیے پاک مٹی کے قصد وارادے کو تیمم کہتے ہیں۔٭تیمم کی مشروعیت : ارشاد باری تعالی ہے :( وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ) (المائدة:5/6) ’’اور اگرتم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی ضروری حاجت سے( فارغ ہو کر) آیا ہو یاتم نے عورتوں سے ہم بستری کی ہو پھرتم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں پرمل لو‘‘حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبیﷺ کے ساتھ نکلے جب ہم بیداء یا ذات الجیش پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تلاش کے لیے قیام فرمایا تو دوسرے لوگ بھی آپ کے ہمراہ ٹھہر گئے۔ وہاں کہیں پانی نہ تھا لوگ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہؓ نے کیا کیا؟ رسول اللہﷺ اور سب لوگوں کو ٹھہر الیا‘ اور یہاں پانی بھی نہیں ملتا اور نہ ان کے پاس ہی ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر آئے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ میری ران پرسر رکھے محواستراحت تھے۔ حضرت ابو بکر کہنے لگے :تم نے رسول الله ﷺ اور سب لوگوں کو یہاں ٹھہرا لیا ‘ حالانکہ ان کے پاس پانی نہیں ہے اور نہ اس جگہ دستیاب ہی ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر مجھ پر سخت ناراض ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا ( برا بھلا )کہا ‘ نیز میری کوکھ میں ہاتھسے کچوکے لگانے لگے۔ میں نے حرکت اس لیے نہ کی کہ میری ران پر رسول اللہ ﷺکا سر مبارک تھا۔صبح کے وقت اس بے آب مقام پر رسول اللہ ﷺبیدار ہوئے تو اللہ تعالی نے آیت تیمم نازل فرما دی چنانچہ لوگوں نے تیمم کر لیا۔ اس وقت حضرت اسید بن حضیر بولے:اے آل ابوبکر کی کوئی تمھاری پہلی برکت نہیں ہے۔ (صحیح البخاري، التيمم حديث : 334) مذکورہ آیت اور حدیث تیمم کے آغاز کی صراحت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی عدم موجودگی کا استعمال پر عدم قدرت کی صورت میں پاک مٹی سے تیمم کرنا جائز ہے۔٭وہ اسباب جن کے باعث تیمم کرنا جائز ہے: جب آدی پانی استعمال کرنے سے قاصر ہوتو وہتیمم کرسکتا ہے مثلا: آس پاس کہیں پانی موجود ہی نہ ہو یا کسی بیماری کے باعث استعمال کر سکتا ہو کہ اس سے ازیت بڑھ جائے گی یا بہت زیادہ سردی ہو جس میں پانی استعمال کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہو۔ حضرت عمران بن حصین سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ سفر میں تھے کہ آپ نےلوگوں کو نماز پڑھائی بعد میں دیکھا کہ ایک آدمی الگ بیٹھا ہوا ہے آپ نے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ تم نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا کہ میں جنابت سے ہوں اور یہاں پانی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: تیرے لیے پاک مٹی سے تیمم کرنا ہی کافی تھا۔‘‘ ( صحيح البخاري، التيمم حدیث: 344) اسی طرح حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے تو ایک آدمی کو پتھر لگا جس سے اس کا سرزخمی ہوگیا، پھر اسے احتلام بھی ہوگیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا میرےلیے رخصت ہے؟ انھوں نے کہا تم پانی استعمال کرنے پر قادر ہو اس لیے تمھارے لیے کوئی رخصت نہیں چنانچہ اس نے غسل کرلیا جس کے نتیجے میں وہ فوت ہو گیا۔ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس کی وفات کی خبر دی تو آپﷺ نے فرمایا:” انھوں نے اس کوقتل کر ڈالا اللہ انھیں ہلاک کرے۔ انھوں نے پو چھ کیوں نہ لیا جبکہ انھیں علم نہ تھا۔ بے شک عاجز (جاہل) کی شفا سوال کر لینے میں ہے۔“ (سنن أبي داود الطهارة حديث: 336، وسنن ابن ماجه الطهارة حديث:572) نیز حضرت عمرو بن عاص سے مروی ہے کہ غزوة ذات سلاسل میں مجھے ایک ٹھنڈی رات میں احتلام ہو گیا، مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو ہلاک ہو جاؤں گا چنانچہ میں نے تیمم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کوصبح کی نماز پڑھائی۔ انھوں نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ذکر کیا تو آپ نے پوچھا: اے عمرو! کیا تو نے جنبی ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی جماعت کرائی تھی ۔ میں نے بتایا کہ کسی وجہ سے میں نے غسل نہیں کیا تھا اور میں نے یہ بھی کہا کہ میں نے اللہ کا فرمان سنا ہے: (ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بکم رحیما) (النساء :4/29)’’ اپنے آپ کوقتل نہ کرو ‘اللہ تم پر بہت ہی مہربان ہے۔ ‘‘تو رسول اللہ ﷺہنس پڑے اور کچھ نہ کہا۔ (مسند أحمد:4/203، و سنن أبي داود الطهارة حديث:334،335)٭تیمم کن چیزوں سے کیا جا سکتا ہے: ارشاد باری تعالی ہے: (فتيمموا صعيدا طيبا (المائدة:5/6 ) ’’پاک مٹی سے تیم کر لو۔‘‘ نیز رسول اللہ مسلم نے فرمایا: [إن الصعيد الطيب طهور المسلم ، و إن لم يجد الماء عشر سنين] (جامع الترمذي الطهارة حديث : 124) ’’ پاک مٹی مسلمان کے لیے طہارت کا ذریعہ ہے اگر چہ دس برس پانی نہ ملے ۔‘‘مذکورہ آیت اورحدیث میں صعید سے تیمم کرنے کا کہا گیا ہے۔ لغت عرب میں سعید سے مراد فقط مٹی نہیں بلکہ سطح زمین ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد پاک زمین ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر پاک مٹی کوصعیدکہا جاتا ہے۔ المصباح المنیر میں ہے: [الصعید وجه الأرض ترابا كان أو غيره] صعید سے مرادسطح زمین ہے چاہے وہ مٹی ہو یا کوئی اور چیز ‘‘امام زجاج ‘جو کہ لغت کے امام مانے جاتے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ اس معنی میں اہل لغت میں اختلاف ہو۔ دیکھیے : (المصباح المنير: 339،340) امام ابن حزم اس کی بابت فرماتے ہیں کہ جس لغت میں قرآن نازل ہوا ہے اسمیں صعید سے مراد سطح زمین ہے۔ دیکھیے :(محلی ابن حزم: 2/159) نیز امام ابو اسحاق اس کی بابت لکھتے ہیں کہ صعید سے مراد سطح زمین ہے اور انسان کے ذمے یہی ہے کہ سطح زمین پر اپنے ہاتھ مارلے‘ یہ خیال کے بغیر کہ وہاں مٹی ہے انہیں کیونکہ عید کے معنی مٹی نہیں ہیں بلکہ زمین کو صعید کہتے ہیں وہ مٹی ہو یا کچھ اور۔ بالفرض اگر زمین ساری کی ساری پتھر ہی ہو اور وہاں مٹی نہ ہو اور تیمم کرنے والا اگر اپنے ہاتھ تھی پتھروں پر مار کر اپنے چہرے پر پھیر لے تویہی اس کے لیے طہارت کا ذر یعہ ہو گا۔ دیکھیے : (الروضة الندية :1/ 174،176) امام ابن خزیمہ نے بھی اپنی صحیح میں باب باندھ کر اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ صعید سے مراد صرف مٹی ہی نہیں بلکہ اس سے شوریلی زمین بھی مراد ہے۔ (صحیح ابن خزيمة:٭ 1/133) امام ابن قیم ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اس زمین سے تیمّم فرماتے تھے جس پر آپ نے نماز پڑھنی ہوتی تھی ‘ وہ خودمٹی ہوتی یا شوریلی زمین یا ریتلی ۔ نبئ اکرم ﷺسے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:’’ جس جگہ میری امت کے کسی فرد کو نماز( کا وقت) پالے ‘و ہیں اس کی مسجد اور اسے پاک کرنے والی چیز ہے۔ (مسند أحمد: 5/248)امام ابن قیم فرماتے ہیں کہ نص صریح ہے کہ جوشخص ریت میں ہو اور نماز کا وقت آجائے تو اس کے لیے ریت باعث طہارت ہے۔ نبی اکرم نیم اور صحابہ کرام مجانے تبوک کا سفر کیا تو دوران سفر میں ان کا گزر ریتلے علاقے سے بھی ہوا اور ان کے پاس پانی انتہائی قلیل تھا اور آپ سے بھی منقول نہیں کہ آپ نے اپنے ساتھ مٹی اٹھائی ہو یا اس کے اٹھانے کا حکم دیا ہو اور نہ صحابہ ہی میں سے کسی نے ایسا کیا۔ جب قطعی طور پر معلوم تھا کہ اس راستے میں مٹی سے ریت کہیں زیادہ ہے ۔ حجاز وغیرہ کی زمین بھی اسی طرح کی ہے۔ جو اس بارے میں تدبرکرے وہ یقینا اس بات کا قائل ہوگا کہ آپ ریتسے بھی تیمم کرلیا کرتے تھے۔ والله أعلم دیکھیے : (زادالمعاد:1/199،200) علاوہ ازیں شیخ محمد بن صاع عثیمین اس مسئلے کی بابت فرماتے ہیں کہ راجح بات یہ ہے کہ اگر کوئی انسان زمین پر ہاتھ مار کر تیمم کر لیتا ہے چاہے زمین پر غبار وغیرہ ہو یا نہ ہو۔ اس کا تیمم کیا ہے۔ دیکھیے : (مجموع فتاوی شیخ ابن عثيمين: 4/238)بعض حضرات نے صحیح مسلم کی روایت : [وجعلت تربتها لنا طهورا ]اور مسند احمد کی روایت :[وجعل التراب لي طهورًا]سے استدلال کرتے ہوئے صرف مٹی ہی سے تیمم کرنے کو ضروری قرار دیا ہے لیکن ان کا یہ استدلال محل نظر معلوم ہوتا ہے کیونکہ قاعدہ ہے کہ اگر عام کے افراد میں سے کسی کی تخصیص کر لی جائے تو اس سے باقی افراد کا عموم ختم نہیں ہو جاتا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: (فيها فاكهة و نخل و رمان) (الرحمن :55:68)’’ان جنتوں میں لذیز پھل ہوں گئے اور کھجوریں اور انار بھی ‘‘ نیز ارشاد ہے:( مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ) (البقرة: 2/98)’’ جو کوئی اللہ کا اس کے فرشتوں کا اس کے رسولوں کا اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہے تو بے شک اللہ بھی کافروں کا دشمن ہے۔‘‘ پہلی آیت میں (فاكهة)’’پھل‘‘ ذکر کرنے کے بعد (نخل) ’’کھجور‘‘ اور (ورمان)” انار‘‘ کا ذکر ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ نخل اور رمان پھل نہیں ہیں اسی طرح دوسری آیت میں پہلے مطلق ملائکہ کا ذکر ہے اور بعد میں جبریل اور میکائیل کا ذکر ہے۔ اس کے بھی یہ معنی نہیں کہ جبر یل اور میکائیل فرشتوں میں سے نہیں ہیں۔ بالکل بعینہ یہی بات مذکورہ دونوں روایتوں سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے ان میں تراب (مٹی) کا لفظ بولا ہے۔ اس کے معنی نہیں ہیں کہ اس سے مراد صرف مٹی ہی ہے اور کوئی چیز ہیں۔ چونکہ مٹی عام ہے اس لیے اس کی تخصیص کر دی ہے۔ مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے:(سبل السلام: 1/193‘194 و نيل الأوطار:1/328، وذخيرة العقبي شرح سنن النسائي : 5/381‘387 ) مذکور تفصیل سے معلوم ہوا کہ رانی موقف یہی ہے کہ تیمم صرف مٹی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ سطح زمین پر جو کچھ بھی ہو اس سے تیم کیا جاسکتا ہے خواہ و مٹی ہو یا ریت وغیرہ - والله ٭ تمیم کا طریقہ: حضرت عمار سے مروی ہے‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں سفر کی حالت میں جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے خاک میں لوٹ پوٹ ہو گیا پھر سفر سے آ کر یہ حال رسول الله ﷺ کے سامنے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمھیں صرف اس طرح کر لینا کافی تھا۔ ‘‘پھر آپ نے ایک بار زمین پر اپنا ہاتھ مارا ‘ پھر اس سے غبار کو جھاڑا اس کے بعد اپنے ہاتھ کی پشت کا بائیں ہاتھ مسح فرمایا یا اپنے بائیں ہاتھ کی پشت کا اپنے ہاتھ سے مسح فرمایا پھر ان سے اپنے چہرے پر مسح کیا۔ (صحیح البخاري، التيمم حديث: 347) مذکورہ روایت میں صرف ہاتھ کی پشت کا ذکر ہے۔ باطن کف‘ یعنی ہاتھ کے اندر کی جانب مسح کا ذکرنہیں ہے‘ تاہم دیگر روایات میں اس کی وضاحت ہے کہ رسول اللہﷺنے زمین پر ہاتھ مارا پھر اسے جھاڑ پھر بائیں ہاتھ سے دائیں کا اور دائیں سے بائیں کا مسح کیا اس کے بعد چہرے کا مسح کیا۔ (سنن أبي داود الطهارة حديث: 321) نیز حافظ ابن حجر نے علامہ اسماعیلی کے حوالے سے جو روایت نقل کی ہے وہ بہت ہی واضح ہے۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت عمار سے فرمایا: ’’تجھے اتنا ہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارتا پھر انھیں جھاڑتا پھر دائیں ہاتھ سے بائیں کا اور بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کا مسح کرتا اس کے بعد اپنے چہرے کا مسح کرتا۔‘‘ (فتح الباري: 1/592تحت حديث: 347) ان روایات سے معلوم ہوا کہ ہاتھوں کو صرف ایک ہی دفعہ زمین پر مارنا چاہیے۔یعنی ہاتھوں پر تیمم کرنے کے بعد منہ کے لیے دوبارہ ہاتھ زمین پر مارنے کی ضرورت نہیں اور نہ کہنیوں وغیرہ پر ہاتھ پھیرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ امام ترمذی نے دوضربوں کے قائلین کے نام لیے ہیں جن میں صحابہ بھی ہیں اور تابعین بھی اور ائمہ بهی ‘نیز موطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالے سے یہ بھی مروی ہے کہ حضرت عبد الله بن عمر تیمم میں کہنیوں تک ہاتھ پھیرتے تھے۔دیکھیے :(الموطأ للإمام مالك باب العمل في التيمم حديث: 153)امام شوکانی ناتے لکھتے ہیں کہ دو مرتبہ ہاتھ زمین پر مارنے والی تمام روایات میں مقال ہے۔ اگر یہ روایات صحیح ہوتیں تو ان پر عمل کر نا متعین ہوتا کیونکہ اس میں ایک بات زیادہ ہے جسے قبول کرنا ضروری ہوتا اس لیے حق بات یہ ہے کہ صحیحین کی حضرت عمار کی روایت ہی کو کافی سمجھا جائے جس میں ایک مرتبہ ہاتھ زمین پر مارنے کا ذکر ہے جب تک کہ دو مرتبہ والی روایت صحیح ثابت نہ ہو جائے۔ دیکھیے : (نیل الأوطار :1/264) اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر کا تیمم میں کہنیوں تک ہاتھ پھیرنا یہ ان کا اپنا عملہے رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ۔ جس سے زیادہ سے زیادہ جواز کی گنجائش نکلتی ہے تا ہم دلائل کی روسے ہی موقف راجح اور اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے کہ تیمم میں صرف ایک ضرب ہے اور وہ بھیصرف ہاتھوں اور چہرے کے لیے ہے اس میں کہنیاں شامل نہیں ہیں ۔ والله أعلم.تیمم جس طرح وضو کا قائم مقام ہے اسی طرح غسل کا بھی لیکن پانی نہ ملنے کی صورت میں جیسے وضو کیبجائے تیمم کیا جا سکتا ہے ایسے ہی کسی پر غسل واجب ہو تو وہ بھی تیمم کرسکتا ہے۔جن چیزوں سے وضوٹوٹ جاتا ہے ان سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ علاوہ ان میں پانی ملنے کی صورت میں یا جس عذر کی وجہ سے تیمم کیا تھا اس کے ختم ہو جانے پر تیمم کا جواز بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ورنہ جب تک بھی نہیں ٹوٹتا اس سے متعدد نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں جیسے وضو برقرار رہے تو کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں ۔پانی کے استعمال پر قدرت کے باوجود صرف اس اندیشے کی وجہ سے تیمم کرنا کہ وضو یا غسل کرنے سے نماز کا وقت ختم ہو جائے گا درست اور جائز نہیں ۔ شیخ البانی اس کی بابت لکھتے ہیں : شریعت میں نص قرآن سے ثابت ہے کہ جب پانی نہ ہو تو آدمی تیمم کرسکتا ہے اس میں سنت مطہرہ نے یہ اضافہ کر دیا ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو یا سخت سردی کے باعث پانی کا استعمال مضر ہوتو اس صورت میں بھی تیمم کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ کہیں ثابت نہیں کہ انسان پانی استعمال کرنے پر قادر ہونے کے باوجودتیمم کرلے۔ آخر اس کی کیا دلیل ہے؟ اگر کہا جائے کہ وقت نکل جانے کا خدشہ ہوتو تیمم کا جواز ہوسکتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور یہ عذر کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ شخص جسے وقت نکل جانے کا اندیشہ ہے دوحالتوںسے خالی نہیں ۔ یا تو یہ اندیشہ اس کے اپنے عمل سستی اور غفلت کی وجہ سے لاحق ہوا ہے یا اس کا اس میں کوئی اختیار نہ تا مثلا: وہ سو گیا تھایا بھول گیا تھا۔ تو اس دوسری حالت میں اس کی نماز کا وقت ہی اس وقت شروع ہوا ہے جب وہ بیدار ہوا یا اسے یاد آیا۔ اسے اسی وقت نماز ادا کر لینی چاہے جیسے اسے حکم دیا گیا ہے۔ اس کی دلیل صحیحین کی روایت ہے نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص نماز بھول گیا یا سویا رہا اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب اسے یاد آنے پڑھ لے ۔‘‘(صحيح البخاري مواقيت الصلاة حديث:597) شارع الحکیم نے اس معذور کے لیے اجازت روا رکھی ہے کہ وہ وایسے ہی نماز پڑھے جس طرح اسے حکم ہے اپنے وضو یا غسل کے لیے پانی استعمال کر ے ۔اس کے لیے وقت نکل جانے کا کوئی خطرہ نہیں ۔چنانچہ معلوم ہوا کہ اس شخص کے لیے تیمم کرنا جائز نہیں ۔اس کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی یہی بات اختیار کی ہے اور مسائل ما ردینیہ کے صفحہ:65پر لکھا ہے کہ جمہور کا بھی یہی موقف ہے ۔ اور پہلی صورت میں بھی یہی بات ہے کہ وہ پانی استعمال رکے اور پانی استعمال کر کے نماز پڑھے اگر بروقت پڑھ لی تو بہتر اور اگر وقت نکل گیا تو اپنے آپ کو ملامت کرے کیونکہ یہ اس کی اپنی کوتاہی کا نتیجہ ہے ۔ یہی وہ بات ہے جس پر مجھے شرح صدور اور دلی اطمینان ہے اگرچہ شیح الاسلام اور بعض دیگر ائمہ اس کے قائل ہیں کہ تیمم کر کے نماز پڑھ لے ۔بعد میں میں نے شیح شوکانی کی کتب کا مطالعہ کیا تو وہ بھی اسی موقف کی طرف مائل ہیں جس کا میں نے ذکر کیا ہے ۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:( تمام المنة،ص:132،133 وسيل الجرار:1/311،312)مذكوره تفصيل اور دیگر دلائل کی رو سے شیح البانی کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ پانی کے استعمال پر قدرت کے باوجود صرف اس وجہ سے تیمم کرنا کہ وضو یا غسل کرنے سے نماز کا وقت نکل جائے گا‘ درست نہیں ۔ والله اعلم-
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ جہاں تک ممکن ہوتا اپنے وضو اور غسل فرماتے، جوتا پہننے، کنگھی کرنے میں دائیں طرف کو پسند فرماتے تھے۔ (شعبہ نے کہا کہ میرے استاد اشعث نے کئی بار یہ حدیث بیان کی) اس نے واسط (شہر) میں (یہ حدیث بیان کی تو) کہا: (آپ ﷺ کو) تمام امور میں (دائیں جانب سے ابتدا کرنا پسند تھا)۔
حدیث حاشیہ:
جوتا پہننا اور کنگھی کرنا اگرچہ عبادات میں داخل نہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں بھی دائیں جانب کو اختیار کرنا پسند فرمایا۔ بعض لوگ عادات اور عبادات میں فرق کرتے ہیں اور عادات میں اتباع رسول کو صرف مستحسن قرار دیتے ہیں، ضروری نہیں سمجھتے، لیکن محدثین دونوں ہی میں اتباع کو ضروری سمجھتے ہیں، الا یہ کہ وہ عادات صرف خصوصی ماحول کا نتیجہ یا آپ کے خاص مزاج و طبیعت کا حصہ ہوں۔ مزید دیکھیے حدیث 112 اور اسکے فوائد۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ طہارت میں، جوتا پہننے میں، اور کنگھا کرنے میں جہاں تک ہو سکتا تھا داہنے کو پسند فرماتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah (RA) said: “The Prophet (ﷺ) used to like to start with the right as much as he could when purifying himself, putting on sandals and combing his hair” — and he (the narrator) said in Wasit (a place in Iraq): “And in all his affairs.” (Sahih)