Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Reward Of The One Who Fulifills The Pledge He Made)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4210.
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک مجلس میں نبیٔ اکرم ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ نے فرمایا: ”مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے۔ زنا نہیں کرو گے۔“ (آپ نے پوری آیت تلاوت فرمائی۔) ”تم میں سے جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا، اس کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے لیکن جس شخص نے ان میں سے کوئی کام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ چاہے اس کو عذاب دے، چاہے معاف فرمائے۔“
تشریح:
(1) ”پوری آیت“ اس سے مراد سورۂ ممتحنہ کی آیت ہے جس میں عورتوں سے مذکورہ بالا دیگر امور پر بیعت لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ آیت عورتوں کے بارے میں ہے اور الفاظ بھی عورتوں والے ہیں۔ ظاہر تو یہی ہے کہ آپ نے مردوں والے الفاظ کے ساتھ پڑھی ہو گی۔ لیکن اگر اصل الفاظ کے ساتھ پڑھی ہو، تب بھی کوئی بعد نہیں کیونکہ مقصد تو امور بیعت کی نشان دہی ہے۔ (2) ”پردہ ڈال دیا“ اس کے گناہ کا کسی کو پتا نہ چلنے دیا۔ گواہ ایسا مہیا نہ ہو سکے جن سے سزا نافذ ہو سکتی ہے۔ یا سزا نہ ملی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4221
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4221
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4215
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک مجلس میں نبیٔ اکرم ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ نے فرمایا: ”مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے۔ زنا نہیں کرو گے۔“ (آپ نے پوری آیت تلاوت فرمائی۔) ”تم میں سے جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا، اس کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے لیکن جس شخص نے ان میں سے کوئی کام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ چاہے اس کو عذاب دے، چاہے معاف فرمائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”پوری آیت“ اس سے مراد سورۂ ممتحنہ کی آیت ہے جس میں عورتوں سے مذکورہ بالا دیگر امور پر بیعت لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ آیت عورتوں کے بارے میں ہے اور الفاظ بھی عورتوں والے ہیں۔ ظاہر تو یہی ہے کہ آپ نے مردوں والے الفاظ کے ساتھ پڑھی ہو گی۔ لیکن اگر اصل الفاظ کے ساتھ پڑھی ہو، تب بھی کوئی بعد نہیں کیونکہ مقصد تو امور بیعت کی نشان دہی ہے۔ (2) ”پردہ ڈال دیا“ اس کے گناہ کا کسی کو پتا نہ چلنے دیا۔ گواہ ایسا مہیا نہ ہو سکے جن سے سزا نافذ ہو سکتی ہے۔ یا سزا نہ ملی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا: ”تم لوگ مجھ سے بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، پھر آپ نے لوگوں کو (سورۃ الممتحنہ کی) آیت پڑھ کر سنائی“۱؎ ، پھر فرمایا: ”تم میں سے جس نے بیعت کو پورا کیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے، اور جس نے اس میں سے کسی غلط کام کو انجام دیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے چھپائے رکھا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے چاہے تو اسے سزا دے، اور چاہے تو اسے معاف کر دے.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس آیت سے مراد سورۃ الممتحنہ کی یہ آیت ہے: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا…»(سورة الممتحنة: ۱۲)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Ubadah bin As-Samit said: "We were with the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) in a gathering and he said: 'Pledge to me that you will not associate anything with Allah, you will not steal, and you will not have unlawful sexual relations.' He recited the Verse to them (and said) Whoever does any of these things, and Allah conceals him then it is up to Allah, the mighty and Sublime: If He wills, He will punish him, and if He wills, He will forgive him.