Sunan-nasai:
The Book of al-'Aqiqah
(Chapter: For a boy, two sheep)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4212.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عقیقے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عقوق کو ناپسند فرماتا ہے۔“ (معلوم ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ نے لفظ عقیقہ کو اچھا نہیں سمجھا)۔ اس سائل نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: جب ہم میں سے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو وہ جانور ذبح کرتا ہے۔ (ہم تو اس کے متعلق پوچھ رہے ہیں) آپ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بچے کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہے تو وہ لڑکے کی طرف سے دو پوری بکریاں ذبح کرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔“ (راویٔ حدیث) داود نے کہا کہ میں نے زید بن اسلم سے اَلْمُکَافَأَتَانِ کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا: اس سے مراد دو ایک جیسی بکریاں ہیں جو بیک وقت ذبح کی جائیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے عقیقے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ شریعت مطہرہ نے لڑکے اور لڑکی کے عقیقے میں یہ فرق کیا ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جیسی دو بکریاں جبکہ لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے گی، تاہم اگر استطاعت نہ ہو تو لڑکے کی طرف سے بھی ایک بکری کفایت کر جائے گی۔ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے عقیقہ میں ایک جانور ذبح کرنا متفقہ مسئلہ ہے اور اس میں کوئی تعجب خیز بات نہیں۔ وراثت میں بھی تو لڑکے اور لڑکی کے حصوں میں فرق ہے۔ ویسے بھی عموماً لوگ لڑکے کی پیدائش پر زیادہ خوشی مناتے ہیں، لہٰذا اس کا شکرانہ بھی زیادہ ہی ہونا چاہیے۔ (2) ”ناپسند فرماتا ہے“ یعنی لفظ عقوق کو، جیسا کہ راوی نے وضاحت کی ہے۔ عقوق کے معنیٰ نافرمانی کے ہیں۔ یہ لفظ اچھا نہیں، لہٰذا بہتر ہے کہ بجائے عقیقہ کے نسیکۃ (اللہ تعالیٰ کے راستے میں ذبح ہونے والا جانور) کہا جائے لیکن یہ بھی ضروری نہیں۔ بعض احادیث میں صراحتاً لفظ عقیقہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں لے سکتے کہ اللہ تعالیٰ فعل عقیقہ کو ناپسند فرماتا ہے کیونکہ آئندہ الفاظ میں تو آپ خود عقیقے کی سنیت ذکر فرما رہے ہیں۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عقیقہ نہ کرنے کو ناپسند فرماتا ہے کیونکہ عقوق کے معنیٰ قطع رحم کے بھی ہیں، جیسے کہ نافرمان اولاد کو عاق کہا جاتا ہے۔ جو والد اپنے بچے کا عقیقہ نہ کرے، گویا اس نے اس رشتے کا حق ادا نہیں کیا، لہٰذا اسے بھی عاق کہا جائے گا کیونکہ اس نے عقوق کیا۔ لیکن یہ معنیٰ ذرا پیچیدہ ہیں۔ (3) ”ذبح کرنا چاہے“ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کرنا ضروری نہیں۔ لیکن دوسری روایات کو ساتھ ملانے سے ثابت ہوتا ہے کہ عقیقہ سنت ہے اور سنت کو بلاوجہ چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ (4) ”دو پوری بکریاں“ یعنی عمر میں بھی پوری ہوں اور اوصاف میں بھی۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقے کا جانور کم از کم قربانی کے جانور کی طرح ہو اور اس میں کوئی عیب نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ پورا نہیں ہو گا۔ اس لفظ کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: ”دو بکریاں جو قربانی کے جانور کے برابر ہوں۔“ تیسرا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ایک جیسی دو بکریاں۔ تینوں ترجمے صحیح ہیں۔ (5) عقیقہ میں بکرا، بکری، مینڈھا، بھیڑ برابر ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت : و هذا شاهد لا بأس به ، فالرجل الضمري شيخ زيد بن أسلم الظاهر أنه تابعي
إن لم يكن صحابيا ، فإن زيد هذا من التابعين الثقات ، فالحديث به صحيح .
( مكافئتان ) يعني متساويتين في السن . و قيل : أي مستويتان ، أو متقاربتان .
و اختار الخطابي الأول ، كما في " النهاية " . و ( الشاة ) : الواحدة من الضأن
و المعز و الظباء و البقر و النعام و حمر الوحش . كما في " المعجم الوسيط
، المشكاة ( 4156 ) ، الإرواء ( 4 / 362
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4223
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4223
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4217
تمہید کتاب
عقیقہ اس جانور کو کہا جاتا ہے جو بچے کی پیدائش کے ساتویں دن بچے کی طرف سے بطور شکرانہ ذبحڈ کیا جائے۔ یہ مسنون عمل ہے۔ جو صاحب استطاعت ہو، اسے ضرور عقیقہ کرنا چاہیے ورنہ بچے پر بوجھ رہتا ہے۔ استطاعت نہ ہو تو الگ بات ہے۔ اس کے مسنون ہونے پر امت متفق ہے۔ امام ابوحنیفہ عقیقے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ وہ عقیقے کو امر جاہلیت، یعنی قبل از اسلام کی ایک رسم قرار دیتے تھے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ عقیقے کی بابت وارد فرامینِ رسول ان کے علم میں نہ آ سکے ہوں۔ و اللہ اعلم۔
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عقیقے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عقوق کو ناپسند فرماتا ہے۔“ (معلوم ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ نے لفظ عقیقہ کو اچھا نہیں سمجھا)۔ اس سائل نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: جب ہم میں سے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو وہ جانور ذبح کرتا ہے۔ (ہم تو اس کے متعلق پوچھ رہے ہیں) آپ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بچے کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہے تو وہ لڑکے کی طرف سے دو پوری بکریاں ذبح کرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔“ (راویٔ حدیث) داود نے کہا کہ میں نے زید بن اسلم سے اَلْمُکَافَأَتَانِ کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا: اس سے مراد دو ایک جیسی بکریاں ہیں جو بیک وقت ذبح کی جائیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے عقیقے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ شریعت مطہرہ نے لڑکے اور لڑکی کے عقیقے میں یہ فرق کیا ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جیسی دو بکریاں جبکہ لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے گی، تاہم اگر استطاعت نہ ہو تو لڑکے کی طرف سے بھی ایک بکری کفایت کر جائے گی۔ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے عقیقہ میں ایک جانور ذبح کرنا متفقہ مسئلہ ہے اور اس میں کوئی تعجب خیز بات نہیں۔ وراثت میں بھی تو لڑکے اور لڑکی کے حصوں میں فرق ہے۔ ویسے بھی عموماً لوگ لڑکے کی پیدائش پر زیادہ خوشی مناتے ہیں، لہٰذا اس کا شکرانہ بھی زیادہ ہی ہونا چاہیے۔ (2) ”ناپسند فرماتا ہے“ یعنی لفظ عقوق کو، جیسا کہ راوی نے وضاحت کی ہے۔ عقوق کے معنیٰ نافرمانی کے ہیں۔ یہ لفظ اچھا نہیں، لہٰذا بہتر ہے کہ بجائے عقیقہ کے نسیکۃ (اللہ تعالیٰ کے راستے میں ذبح ہونے والا جانور) کہا جائے لیکن یہ بھی ضروری نہیں۔ بعض احادیث میں صراحتاً لفظ عقیقہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں لے سکتے کہ اللہ تعالیٰ فعل عقیقہ کو ناپسند فرماتا ہے کیونکہ آئندہ الفاظ میں تو آپ خود عقیقے کی سنیت ذکر فرما رہے ہیں۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عقیقہ نہ کرنے کو ناپسند فرماتا ہے کیونکہ عقوق کے معنیٰ قطع رحم کے بھی ہیں، جیسے کہ نافرمان اولاد کو عاق کہا جاتا ہے۔ جو والد اپنے بچے کا عقیقہ نہ کرے، گویا اس نے اس رشتے کا حق ادا نہیں کیا، لہٰذا اسے بھی عاق کہا جائے گا کیونکہ اس نے عقوق کیا۔ لیکن یہ معنیٰ ذرا پیچیدہ ہیں۔ (3) ”ذبح کرنا چاہے“ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کرنا ضروری نہیں۔ لیکن دوسری روایات کو ساتھ ملانے سے ثابت ہوتا ہے کہ عقیقہ سنت ہے اور سنت کو بلاوجہ چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ (4) ”دو پوری بکریاں“ یعنی عمر میں بھی پوری ہوں اور اوصاف میں بھی۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقے کا جانور کم از کم قربانی کے جانور کی طرح ہو اور اس میں کوئی عیب نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ پورا نہیں ہو گا۔ اس لفظ کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: ”دو بکریاں جو قربانی کے جانور کے برابر ہوں۔“ تیسرا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ایک جیسی دو بکریاں۔ تینوں ترجمے صحیح ہیں۔ (5) عقیقہ میں بکرا، بکری، مینڈھا، بھیڑ برابر ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا۔“ گویا کہ آپ کو یہ نام ناپسند تھا۔ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: ہم تو آپ سے صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ جب ایک شخص کے یہاں اولاد پیدا ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: ”جو اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے۱؎ کرے، لڑکے کی طرف سے ایک ہی عمر کی دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔“ داود بن قیس کہتے ہیں: میں نے زید بن اسلم سے «مكافئتان» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: دو مشابہ بکریاں جو ایک ساتھ ذبح کی جائیں.۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اسی جملے سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ کہتے ہیں کہ ”عقیقہ“ فرض نہیں مندوب و مستحب ہے، جب کہ فرض قرار دینے والے حدیث نمبر ۴۲۱۹ سے استدلال کرتے ہیں جس میں حکم ہے کہ ”بچے کی طرف سے خون بہاؤ“ نیز اور بھی کچھ الفاظ ایسے وارد ہیں جن سے عقیقہ کی فرضیت معلوم ہوتی ہے، إلا یہ کہ کسی کو عقیقہ کے وقت استطاعت نہ ہو تو بعد میں استطاعت ہونے پر قضاء کر لے۔ ۲؎ : عمر میں برابر ہوں یا وصف میں ایک دوسرے سے قریب تر ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin Shuaib, from his fahther, that his grandfather said: "The Messenger of Allah was asked about the 'Aqiqah and he said: "Allah, the mighty and sublime, does not like Al-Uquq' as if he disliked the word (Al-Aqiqah). He said to the Messenger of Allah (ﷺ): 'But one of us may offer a sacrifice when a child is born to him.' He said: 'Whoever wants to offer a sacrifice for his child, let him do so, for a boy; two sheep, Mukafaatan, (of equal age), and for a girl, one.' (One of the narrators) Dawud said: 'I asked Ziad bin Aslam about the word Mukafaatan and he said: 'Two similar sheep that are slaughtered together.