Sunan-nasai:
The Book of Salah
(Chapter: How Many (Prayers) Are Enjoined Each Day And Night?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
458.
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نجد والوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ تو سنتے تھے لیکن ہمیں اس کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی حتیٰ کہ وہ قریب آگیا تو ناگہاں وہ اسلام کے بارے میں پوچھنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں۔“ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، مگر یہ کہ تو نفل پڑھے۔“ آپ نے فرمایا: ”اور ماہ رمضان کے روزے ہیں۔“ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزہ مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، مگر یہ کہ تو نفل روزے رکھے۔“ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نےا س کے لیے زکاۃ کا ذکر فرمایا۔ اس نے کہا: کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ (مالی صدقہ) فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، مگر یہ کہ تو نفلی صدقہ دے۔“ وہ آدمی واپس مڑا اور کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! نہ اس سے زائد کروں گا نہ اس میں کمی کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ سچا ہوا تو کامیاب رہا۔“
تشریح:
(1)”بھنبھناہٹ سنتے تھے۔“ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گفتگو دھیمی آواز میں کررہا تھا۔ (2)چونکہ وہ سائل پہلے سے مسلمان تھا، شہادتین کا اقرار کرچکا تھا، اس لیے آپ نے اس کو دوسرے ارکان اسلام بیان فرمائے۔ حج کا ذکر نہیں فرمایا کہ وہ ابھی تک فرض نہ ہوا تھا۔ محقق بات یہ ہے کہ حج ۹ہجری میں فرض ہوا۔ (3)”مگر یہ کہ تو نفل کرے۔“ گویا اصل سوال فرائض کے بارے ہی میں تھا۔ فلاح کا مدار بھی فرائض ہی پر ہے، باقی رہے سنن و نوافل، تو وہ فرائض کی تکمیل کے لیے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کمی سنن و نوافل سے پوری ہوتی ہے۔ شاید ہی کوئی شخص فرائض کی مکمل ادائیگی کا دعویٰ کرسکے، اس لیے سنن و نوافل خصوصاً رواتب کی پابندی بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے بھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پابندی فرمائی ہے اور ہمارے لیے آپ کی سنن کی اتباع لازم ہے، نیز رواتب (فرض نماز کی اگلی پچھلی سنتیں) فرض کے تابع ہیں، الگ نہیں، لہٰذا سفر، مرض اور انتہائی مصروفیت کے علاوہ ان پر دوام کیا جائے۔ باقی رہا بعض لوگوں کا یہ قول کہ ’’نفل نماز یا روزہ شروع کرنے سے بھی واجب ہوجاتا ہے کیونکہ راستے میں چھوڑ دینے سے بطلان عمل ہوگا اور قرآن مجید میں ہے: ﴿ولاتبطلوا اعمالکم﴾(محمد۴۷:۳۳) تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزعمل اور احادیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی روزہ مکمل کرنے سے پہلے افطار کیا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:۱۱۵۴) اس لیے جمہور اہل علم کے مطابق شروع کرنے سے نفل فرض نہیں بن جاتا، البتہ تکمیل بہتر ہے۔ باقی رہی آیت مبارکہ تو اس کا سیاق و سباق بعض لوگوں (احناف) والا معنی لینے سے مانع ہے کیونکہ اس آیت میں خلاف سنت کام کرنے کو باطل کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 6 / 696 :
أخرجه النسائي ( 1 / 228 - 229 - القلم ) و ابن حبان ( 251 ) و الزيادة الثانية
له ، و أحمد ( 3 / 267 ) و له الزيادة الأولى ، كلهم من طريق نوح بن قيس عن
خالد ابن قيس عن قتادة عن أنس قال : سأل رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم
فقال : يا رسول الله ! كم افترض الله عز وجل على عباده من الصلوات ؟ قال :
فذكره .. قال : يا رسول الله هل قبلهن أو بعدهن شيء ؟ قال : فذكره بالزيادة
الأولى ، فحلف الرجل .. قلت : و هذا إسناد صحيح على شرط مسلم . و للحديث شاهد
من حديث طلحة بن عبيد الله أتم منه . رواه الشيخان و غيرهما ، و هو مخرج في "
صحيح أبي داود " ( 414 ) . ( تنبيه ) : في رواية لمسلم و النسائي أن النبي صلى
الله عليه وسلم قال : " أفلح و أبيه إن صدق .. " . فزاد : و أبيه " ، و هي شاذة
كما حققته في " الضعيفة " ( 4992 ) .
صحيح أبي داود ( 414 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
458
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
457
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
459
تمہید کتاب
امام نسائی طہارت اور اس سے متعلق دیگر احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد ایسی عبادت سے متعلق احکام و مسائل بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے پہلے طہارت شرط ہے اور وہ عبادت نماز ہے جس کی بابت احادیث میں مروی ہے کہ دین اسلام میں شہادتین کے اقرار کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا ذیل میں اسی عبادت کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کی فرضیت و اہمیت کی احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے تاکہ قارئین احکام و مسائل جاننے اور پڑھنے سے قبل اس کی اہمیت اور فضیلت بھی جان لیں ۔صلاة (نماز) کے لغوی معنی’’ دعا‘‘ پر مشتمل ہے اس لیے اسے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔(سبل السلام:1/193) شرعی اصطلاح میں نماز چند اقوال و افعال کا نام ہے جن کا آغاز چند مخصوص شرائط کے ساتھ تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے اور اختتام سلام پر ۔دیکھیے: الفقه على المذاهب الأربعة ،ص:103،طبع جديد دارابن الهيثم)توحید و رسالت کے اقرار کے بعد ایک بالغ مسلمان مرد و عورت پانچ وقت اقامت صلاۃ کا پابند ہے ‘نیز نماز ارکان خمسہ میں سے اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے لہذا جو شخص جانتے بوجھتے اس کی فرضیت کا منکر ہو‘وہ بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہوگا نماز مومن کی ایک اہم پہچان ہے یہ برائی اور بے ۔حیائی سے روکتی ہے اس کی مداومت و محافظت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاح و فوز کا وعدہ ہے بلوغت سے تا دم حیات انسان اس کا پابند ہے عذر کی صورت میں کیفیت ادا میں تو اس کی تخفیف ہے لیکن معافی قطعاً نہیں اس کا مقصد اعظم تو یاد الٰہی ہے لیکن عاجزی دور ماندگی کے اظہار کے لیے اللہ کے سامنے یہ ایک عمدہ صورت ہے یہ نفس کا سکون اورروح کی غذا ہے ہم و غم اور دکھ درد کا کامیاب علاج ہے مردن دلوں کی مایوسی اور ویرانی کے لیے آب حیات ہے راہ راست رب العالیمن سے مناجات کا ذریعہ ارو مومن کی معراج ہے بے صبری میں نسخۂ کیمیا اور مومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔[جعلت قرة عيني فى الصلاةِ] بہر حال قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں نماز کا حکم اس کی اہمیت کے لیے کافی ہے علاوہ ازیں احادیث میں اس کے احکام و اوامر اس کی اہمیت و وقعت کو چار چاند لگا دیتے ہیں لہذا تارک الصلاۃ یا اس کے حق میں سستی برتنے والے کے لیے بالکل گنجائش کا کوئی راستہ نہیں نکلتا یاد رہے نماز کی ادائیگی کے لیے ’’ اقامت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز اپنی حدودوقیود ‘فرائض و واجبات ‘شرائط اور مسنون طریقے کے مطابق ادا کی جائے تب مذکورہ بالا فوائد کا حصول ممکن اور اقامت صلاۃ کا اہتمام ہو سکتا ہے وگرنہ مرضی یا وقت گزاری کی نماز عنداللہ شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔آپﷺ کا فرمان ہے ۔[خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ]’’جس شخص نے عمد طریقے سے ان (نمازوں) کا وضو کیا ‘ بروقت ان کی ادائیگی کی اور ان کے رکوع اور خشوع کو مکمل طور پر بجا لایا تو اس کے حق میں اللہ کا وعدہ اور ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا ۔ اور جس نے (اس طرح) بجا آوری نہ کی تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں ‘چاہے تو اسے بخش اور چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘(وانظر صحيح سنن أبي داود (مفصل) للالبانى ،حديث :452)نماز کی اہمیت وفضیلت سے متعلق کچھ دیگر احادیث بطور دیل و حجت کے حاضر خدمت ہیں:حضرت ابوہریرہ ٰ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے پوچھا:” مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی ایک کےگھر کے سامنے نہر بہہ رہی ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ مرتب نہاۓ کیا اس کے بدن پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟‘‘ صحابہ کرام نے جواب دیا: نہیں۔ تب آپ ﷺنے فرمایا: ’پانچ نمازوں کی مثال ایسے ہی ہے۔ اللہ تعالی ان کی وجہ سے خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقيت الصلاة)حديث:۵۲۸، وصحيح مسلم المساجد حديث:۲۹۷) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے رسول ﷺ نے فرمایا: (گناہوں کی وجہ سے) تم جلتے ہو جھلستے ہو۔ جب تم صبح کی نماز پڑھتے ہو تو یہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے پھر تم جھلستے ہی رہتے ہو یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھتے ہو تو یہ خطاؤں کو دھو ڈالتی ہے۔ پھر تم ( گناہوں کی وجہ سے )آگ میں جلتے جھلتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑتے ہو تو یہ گناہوں کو دھوڈالتی ہے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہو تو یہ انھیں دھو دیتی ہے۔ پھر (خطاؤں کی تپش سے )جلتے ہو حتی کہ تم عشاء کی نماز پڑھتے ہو تو یہ نماز ان (گناہوں) کو دھو ڈالتی ہے پھر تم سو جاتے ہو تمہارا کچھ بھی نہیں لکھا جاتا یہاں تک کہ تم بیدار ہو جاؤ(المعجم الكبير للطبرانى ،حديث:8739 موقوفا والاوسط له،ٍحديث:2224- وصحيح الترغيب والترهيب،حديث :357) نيز حضرت انس بن مالك سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہر نماز کے وقت منادی کرتا ہے اے بنی نوع انسان! تم نے جو آگ بھڑکائی ہے اسے بجھانے کے لیے اٹھو یعنی نماز پر پر‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانى ،حديث 9452 وانظر صحيح الترغيب والترهيب، حديث :358)اسی طرح آپ کا فرمان ہے کہ جب بندۂ مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اس کی خطائیں اس کے سر پر بلند ہوتی ہیں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے تو اس سے گرتی جاتی ہیں بالآخرجب وہ نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو اس کی لغزشیں گر (معاف ہو)چکی ہوتی ہیں ۔‘‘ترک صلاۃ یا اس میں کمی کوتاہی یا سستی کفریہ و تیرہ اور منافقانہ روش ہے نبئ اکرمﷺ نے بندے اور کفر و شرک کے درمیان حد امتیاز ترک صلاۃ کو قرار دیا ہے ۔صحیح مسلم الایمان حدیث 82) امیرالمؤمنین عمر فاروق جب زخمی تھے ‘انھوں نے نماز ادا کی اور فرمایا دجو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘یہ تو تھی نماز کی فرضیت اور اہمیت و فضیلت جبکہ نماز کے دیگر احکام و مسائل امام نسائی نے بیان کیے ہیں جن کی تفصیل آگے اپنے اپنے مقام پر آئے گی ۔ انشاءاللہ۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نجد والوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ تو سنتے تھے لیکن ہمیں اس کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی حتیٰ کہ وہ قریب آگیا تو ناگہاں وہ اسلام کے بارے میں پوچھنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں۔“ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، مگر یہ کہ تو نفل پڑھے۔“ آپ نے فرمایا: ”اور ماہ رمضان کے روزے ہیں۔“ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزہ مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، مگر یہ کہ تو نفل روزے رکھے۔“ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نےا س کے لیے زکاۃ کا ذکر فرمایا۔ اس نے کہا: کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ (مالی صدقہ) فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، مگر یہ کہ تو نفلی صدقہ دے۔“ وہ آدمی واپس مڑا اور کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! نہ اس سے زائد کروں گا نہ اس میں کمی کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ سچا ہوا تو کامیاب رہا۔“
حدیث حاشیہ:
(1)”بھنبھناہٹ سنتے تھے۔“ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گفتگو دھیمی آواز میں کررہا تھا۔ (2)چونکہ وہ سائل پہلے سے مسلمان تھا، شہادتین کا اقرار کرچکا تھا، اس لیے آپ نے اس کو دوسرے ارکان اسلام بیان فرمائے۔ حج کا ذکر نہیں فرمایا کہ وہ ابھی تک فرض نہ ہوا تھا۔ محقق بات یہ ہے کہ حج ۹ہجری میں فرض ہوا۔ (3)”مگر یہ کہ تو نفل کرے۔“ گویا اصل سوال فرائض کے بارے ہی میں تھا۔ فلاح کا مدار بھی فرائض ہی پر ہے، باقی رہے سنن و نوافل، تو وہ فرائض کی تکمیل کے لیے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کمی سنن و نوافل سے پوری ہوتی ہے۔ شاید ہی کوئی شخص فرائض کی مکمل ادائیگی کا دعویٰ کرسکے، اس لیے سنن و نوافل خصوصاً رواتب کی پابندی بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے بھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پابندی فرمائی ہے اور ہمارے لیے آپ کی سنن کی اتباع لازم ہے، نیز رواتب (فرض نماز کی اگلی پچھلی سنتیں) فرض کے تابع ہیں، الگ نہیں، لہٰذا سفر، مرض اور انتہائی مصروفیت کے علاوہ ان پر دوام کیا جائے۔ باقی رہا بعض لوگوں کا یہ قول کہ ’’نفل نماز یا روزہ شروع کرنے سے بھی واجب ہوجاتا ہے کیونکہ راستے میں چھوڑ دینے سے بطلان عمل ہوگا اور قرآن مجید میں ہے: ﴿ولاتبطلوا اعمالکم﴾(محمد۴۷:۳۳) تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزعمل اور احادیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی روزہ مکمل کرنے سے پہلے افطار کیا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:۱۱۵۴) اس لیے جمہور اہل علم کے مطابق شروع کرنے سے نفل فرض نہیں بن جاتا، البتہ تکمیل بہتر ہے۔ باقی رہی آیت مبارکہ تو اس کا سیاق و سباق بعض لوگوں (احناف) والا معنی لینے سے مانع ہے کیونکہ اس آیت میں خلاف سنت کام کرنے کو باطل کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سہیل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلحہ بن عبیداللہ ؓ کو کہتے سنا کہ اہل نجد کا ایک آدمی پراگندہ سر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سن رہے تھے، لیکن جو کہہ رہا تھا اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے، یہاں تک کہ وہ قریب آ گیا، تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”(اسلام) دن اور رات میں پانچ وقت کی نماز پڑھنا ہے“ ، اس نے پوچھا: کیا میرے اوپر ان کے علاوہ بھی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، الا یہ کہ تم نفل پڑھو“ ، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ”ماہ رمضان کا روزہ ہے“ ، اس نے پوچھا: اس کے علاوہ بھی کوئی روزہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں، الا یہ کہ تم نفل رکھو“ ، رسول اللہ ﷺ نے اس سے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا، تو اس نے پوچھا: کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں، الا یہ کہ تم نفل صدقہ دو“ ، پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر جانے لگا، اور وہ کہہ رہا تھا: قسم اللہ کی! میں اس سے نہ زیادہ کروں گا نہ کم، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کامیاب ہو گیا اگر اس نے سچ کہا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Suhail, from his father, that he heard Talhah bin ‘Ubaidullah say: “A man from the people of Najd came to the Messenger of Allah (ﷺ) with unkempt hair. We could hear him talking loudly but we could not understand what he was saying until he came closer. He was asking about Islam. The Messenger of Allah (ﷺ) said to him: ‘Five prayers each day and night.’ He said: ‘Do I have to do anything else?’ He said: ‘No, unless you do it voluntarily.’ He said: ‘And fasting the month of Ramadan.’ He said: ‘Do I have to do anything else?’ He said: ‘No, unless you do it voluntarily.’ And the Messenger of Allah (ﷺ) mentioned Zakah to him, and he said: ‘Do I have to do anything else?’ He said: ‘No, unless you do it voluntarily.’ The man left saying: ‘By Allah, I will not do any more than this or any less.’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘He will achieve salvation, if he is speaking the truth.” (Sahih)