باب: اگر بیع میں کوئی فاسد شرط لگالی جائے تو بیع صحیح ہوگی البتہ وہ شرط غیر معتبر ہوگی
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: If there Is an invalid condition in a transaction, the transaction Is valid but that condition is invalid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4642.
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے بریرہ کو (اس کے مالکان سے) خریدا تو اس کے مالکان نے اس کے ولا کی اپنے لیے شرط لگا لی۔ میں نے یہ بات نبی اکرم ﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دے۔ ولا اسی کی ہوتی ہے جو پیسے دیتا (غلام کو خریدتا) ہے۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے اسے آزاد کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور اسے اپنے خاوند کے (پاس رہنے یا نہ رہنے کے) بارے میں اختیار دیا۔ اس نے خاوند سے اپنی جدائی کو پسند کیا۔ اس کا خاوند آزاد تھا۔
تشریح:
(1) اگر کوئی شخص بیع کرتے وقت ایسی شرط لگاتا ہے جو شرعاً درست نہ ہو تو اس صورت میں بیع کرنا درست ہو گا جبکہ وہ شرط جو خلاف شریعت ہو، باطل ہو گی، لہٰذا اس شرط کو کا لعدم سمجھا جائے گا اور اس کا کوئی لحاظ نہیں ہو گا جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ نے پوری وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ (2) اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور مختلف روایت میں مختلف الفاظ مذکور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے والے راویوں نے کہیں تفصیلی روایت بیان کی ہے اور کہیں اختصار سے کام لیا ہے اور یہ سب کچھ ضرورت کے مطابق کیا گیا ہے۔ روائ حدیث کے اس قسم کے تصرف کو تمام محدثین عظام نے من و عن قبول کیا ہے اور حق بھی یہی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ احادیث سے مختلف احکام و مسائل اخذ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ (لہٰذا یہاں بھی مذکورہ حدیث سے علماء نے متعدد مسائل استنباط کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔) (3) مکاتبت جائز ہے۔ مکاتبت اس عہد و پیمان کو کہا جاتا ہے جو مالک اور اس کے غلام یا لونڈی کے درمیان، متعین رقم یک مشت دینا اور اس کی قسطیں کرنا، دونوں طرح جائز ہے۔ لونڈی یا غلام کی مکاتبت کی رقم دوسرا شخص دے سکتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا شخص مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور لونڈی و غلام کو آزاد کر دے تو وہ آزاد ہو جائیں گے، البتہ اس صورت میں اس لونڈی یا غلام کے ولاء کا حق دار آزاد کرنے والا ہو گا نہ کہ پہلا مالک۔ (4) ولاء اس ربط و تعلق کو کہتے ہیں جو آزاد کرنے والے اور آزاد کردہ کے مابین، آزاد کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ تعلق نہ تو بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تعلق بالکل اسی طرح کا ہوتا ہے جیسا کہ باپ اور بیٹے کے درمیان والا تعلق ہوتا ہے جو نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس تعلق کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آزاد کردہ شخص کے عصبہ اور ذوی الفروض (جن کا حصہ میراث مقرر ہے) نہ ہوں تو اس کی تمام جائداد کا مالک آزاد کرنے والا ہوتا ہے۔ (5) اگر کوئی لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کے لیے دستِ سوال دراز کرے تو یہ سوال کرنا درست ہے اور اس سلسلے میں اس کی مدد بھی کرنی چاہیے، نیز اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مستحق آدمی کا اپنی جائز ضرورت یا ضروریات پوری کرنے کی خاطر سوال کرنا درست ہے۔ (6) اس حدیث مبارکہ سے باہمی مشاورت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے خصوصاً میاں بیوی کی باہمی مشاورت کا اثبات ہوتا ہے، نیز اگر بیوی خاوند سے کسی مسئلے میں مشورہ طلب کرے تو خاوند کے لیے ضروری ہے کہ اسے درست مشورہ دے۔ (7) اگر لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا نہ کر سکتے ہوں تو انھیں بیچا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کے الفاظ مبارک اشتريها وَ أعتقيها ہیں، یعنی اسے خریدو اور آزاد کر دو۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، المكاتب، باب المكاتب و نحوه۔۔۔۔۔۔الخ، حديث:۲۵۶۰،و صحيح مسلم، العتق، باب ذكر سعاية العبد، حديث:۱۵۰۴) (8) اگر میاں بیوی دونوں غلام ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ دونوں اکٹھے ہی بیچے جائیں۔ (9) اس حدیث بریرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی یا غلام کے پاس مال وغیرہ نہ ہو، اس سے مکاتبت کرنا، یعنی اسے مکاتب بنانا درست ہے، خواہ اس کے پاس مال کمانے کے وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ (10) مکاتب لونڈی یا غلام اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گے جب تک مکاتبت کے بابت طے شدہ ساری رقم ادا نہ کردیں۔ جب تک ان کے ذمے ایک درہم بھی باقی ہے وہ غلام ہی رہیں گے اور اسی اصل کے مطابق ان پر دیگر احکام جاری ہوں گے، یعنی نکاح، طلاق اور حدود وغیرہ کے احکام غلاموں والے ہی ان پر لاگو ہوں گے۔ (11) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ظابر ہوتا ہے کہ شادی شدہ لونڈی کی فروخت اور آزادی نہ طلاق ہو گی اور نہ فسخ نکاح ہی، اس لیے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو بعد ازاں اختیار دیا گیا تھا کہ چاہے تو وہ اپنے خاوند مغیث کے نکاح میں رہے اور چاہے تو اس سے الگ ہوجائے۔ اس اختیار کے بعد انھوں نے اپنے خاوند سے علیحدگی کو اختیار کیا۔ (12) لونڈی سے اس کا مالک جماع کر سکتا ہے، تاہم اگر وہ کسی کی بیوی ہو تو پھر جائز نہیں، نیز لونڈی کو محض بیچ دینے سے، اس کے ساتھ جماع کرنا حلال نہ ہو گا۔ سیدہ بریرہ کو خاوند کے پاس رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دینا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ابھی تک خاوند کے ساتھ ان کا تعلق باقی تھا۔ اگر کوئی تعلق باقی نہ رہتا تو پھر اختیار کس چیز کا تھا؟ (13) اگر بوقت سوال، سائل مجبور نہیں ہے تو سوال کر سکتا ہے، یعنی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وقت ضرورت کے آنے سے پہلے بھی اس ضرورت کی بابت سوال ہو سکتا ہے۔ (14) شادی شدہ عورت سے مدد اور مالی تعاون مانگا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی مکاتبت کی بابت مالی تعاون مانگا تھا اور انھوں نے اس کی درخواست قبول فرما لی تھی اور بریرہ کو خرید کر اسے آزاد کر دیا تھا۔ (15) شادی شدہ خاتون، اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کر سکتی ہے بشر طیکہ وہ تصرف کسی جائز ضرورت کی خاطر ہو۔ (16) طلب اجر کی خاطر مال خرچ کرنا بلکہ زائد از ضرورت خرچ کرنا درست ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی مکاتبت کی ساری رقم جو نو قسطوں کی نو سال میں ادائیگی کی صورت میں طے ہوئے تھی، یکمشت ادا کر دی اور انھیں اسی وقت آزاد کر دیا۔ (17) غلام اور لونڈی کے لیے اپنی آزادی کی خاطر محنت اور کوشش کرنا جائز ہے، خواہ اس مقصد کے لیے اسے کسی ایسے شخص سے سوال کرنا پڑے جو اسے خرید کر آزاد بھی کر دے۔ ایسا کرنے سے اس کے مالک کا اگر چہ نقصان بھی ہوتا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ اس لیے کہ شارع ﷺ نے غلام کی آزادی کو سراہا اور اس عظیم نیکی کا شوق بھی دلایا ہے، اس لیے اس کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ (18) اگر کوئی شخص لونڈی یا غلام بیچے لیکن یہ شرط لگا لے کہ یہ میری خدمت کرتا رہے گا تو یہ شرط باطل ہو گی۔ (19) اگر مکاتب اپنی قسط کی رقم اس مال سے ادا کرے جو اس پر صدقہ کیا گیا ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں، مالک کو ایسی رقم قبول کرنے سے تامل نہیں کرنا چاہیے اگرچہ وقت مقررہ سے قبل ہی وہ رقم کی ادائیگی کر رہا ہو۔ مکاتب دراصل غلام ہی ہوتا ہے جب تک کہ وہ تمام رقم ادا نہ کر دے اور غلام پر صدقہ کرنا درست ہے۔ جب صدقہ اصل محل تک پہنچ جائے تو وہ مالدار شخص کے استعمال کے لیے جائز ہو جاتا ہے۔ (20) رسول اللہ ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالک ایسی شرط لگا رہے ہیں جو شرعاً درست نہیں تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کسی کا نام لیے بغیر مسئلے کی وضاحت فرمائی اور ایسی ہر شرط کو باطل قرار دیا جو قرآن و حدیث کے منافی ہو۔ اس سے معلوم ہوا جب کوئی اہم شرعی معاملہ در پیش ہو تو کھڑے ہو کر خطبہ دینا مشروع ہے۔ (21) جس شخص سے کوئی غیر شرعی اور منکر کام سرزد ہو تو اس صورت میں غلط کام کرنے والے شخص کا نام لیے بغیر ہی اس کی اصلاح کی جائے۔ اس طرح کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے نہ کہ کسی کو شرمندہ اور رسوا کرنا۔ (22) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی عورتیں کسی شخص کے گھر میں آ سکتی ہیں، خواہ گھر کا مالک مرد اپنے گھر میں موجود ہو یا نہ ہو۔ (23) رسول اللہ ﷺ کے لیے صدقہ مطلقاً حرام ہے۔ آپ پر نہ صدقہ کیا جا سکتا ہے اور نہ آپ صدقے کا مال کھا ہی سکتے ہیں۔ ہاں، اگر صدقہ کسی مستحق پر کر دیا جائے اور وہ نبی ﷺ کو بطور ہد یہ پیش کر دے تو یہ درست ہے۔ (24) غنی اور مالدار شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ محتاج و فقیر کا دیا ہوا ہد یہ قبول کر لے، نیز معلوم ہوا کہ صدقے اور ہدیے کا حکم الگ الگ ہے۔ (25) اگر کسی شخص کو اپنے ہاں کسی شخص کے کھانے سے خوشی ہو تو وہ شخص بلا اجازت بھی اس کے گھر سے کھا پی سکتا ہے۔ (26) ایسا سوال کرنا مستحب ہے جس سے علم حاصل ہوتا ہو یا اس سے ادب ملتا ہو یا کسی قسم کا حکم واضح ہوتا ہو یا اس سے کوئی شبہ رفع ہوتا ہو۔ (27) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی پر تھوڑی چیز صدقہ کی جائے تو اس کو قبول کر لینا چاہیے۔ اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ (28) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو خوش کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب عمل ہے۔ (29)یہ حدیث مبارکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے حسن ادب پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی سفارش واضح انداز میں رد نہیں کی بلکہ یہ کہا ہے کہ مجھے اپنے خاوند مغیث کی حاجت نہیں۔ (30) سفارش کرنے والے کو یقینا اس کی جائز سفارش کرنے کا اجرو ثواب مل جاتا ہے، خواہ اس کی سفارش قبول ہو یا رد کر دی جائے۔ (31) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرطِ محبت انسان کے لیے بڑی آزمائش کا سبب بنتی ہے۔ بسا اوقات اسے بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مدینے کی گلیوں میں ان کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے۔أعاذنا الله منه۔ (32) دو باہم نفرت کرنے والوں کے مابین صلح صفائی کرانا مستحب ہے، خواہ وہ دونوں میاں بیوی ہی ہوں۔ میاں بیوی ہونے کی صورت میں یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے تاکہ بچے والدین کی باہمی نفرت و اختلاف کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ کو حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت سفارش کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا: إنَّهُ أبوولدِكِ”وہ تیرے بچے کا باپ ہے۔“ (33) بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف کرنا بھی جائز ہے۔ (34)شوہر دیدہ خاتون کو مجبور نہیں کرنا چاہیے، خواہ وہ آزاد کردہ ہی کیوں نہ ہو۔ (35) نکاح فسخ ہونے کی صورت میں رجوع نہیں ہو سکتا لیکن نیا نکاح ہو سکتا ہے۔ (36) اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے نفرت کرتی ہو تو اس کے سر پرست کو چاہیے کہ وہ اس عورت کو خاوند کے ساتھ رہنے پر مجبور نہ کرے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو کہ عورت اپنے خاوند سے محبت کرتی ہو تو سر پرست اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان جدائی اور تفریق نہ ڈالے۔ (37) شارحینِ حدیث نے اس حدیث مبارکہ سے کم و بیش ڈیڑھ سو (۱۵۰) فوائد و مسائل کا استنباط کیا ہے لیکن ہم نے بغرض اختصار مذکورہ بالا فوائد و مسائل ہی پر اکتفا کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملا حظہ فرمایے: (ذخيرة العقبىٰ، شرح سنن النسائي للأتيوبي:۹/۲۹-۱۹) اس روایت پر مزید بحث کے لیے دیکھیے، احادیث ۳۴۷۷تا۳۴۸۴۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4655
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4656
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4646
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے بریرہ کو (اس کے مالکان سے) خریدا تو اس کے مالکان نے اس کے ولا کی اپنے لیے شرط لگا لی۔ میں نے یہ بات نبی اکرم ﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دے۔ ولا اسی کی ہوتی ہے جو پیسے دیتا (غلام کو خریدتا) ہے۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے اسے آزاد کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور اسے اپنے خاوند کے (پاس رہنے یا نہ رہنے کے) بارے میں اختیار دیا۔ اس نے خاوند سے اپنی جدائی کو پسند کیا۔ اس کا خاوند آزاد تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگر کوئی شخص بیع کرتے وقت ایسی شرط لگاتا ہے جو شرعاً درست نہ ہو تو اس صورت میں بیع کرنا درست ہو گا جبکہ وہ شرط جو خلاف شریعت ہو، باطل ہو گی، لہٰذا اس شرط کو کا لعدم سمجھا جائے گا اور اس کا کوئی لحاظ نہیں ہو گا جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ نے پوری وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ (2) اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور مختلف روایت میں مختلف الفاظ مذکور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے والے راویوں نے کہیں تفصیلی روایت بیان کی ہے اور کہیں اختصار سے کام لیا ہے اور یہ سب کچھ ضرورت کے مطابق کیا گیا ہے۔ روائ حدیث کے اس قسم کے تصرف کو تمام محدثین عظام نے من و عن قبول کیا ہے اور حق بھی یہی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ احادیث سے مختلف احکام و مسائل اخذ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ (لہٰذا یہاں بھی مذکورہ حدیث سے علماء نے متعدد مسائل استنباط کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔) (3) مکاتبت جائز ہے۔ مکاتبت اس عہد و پیمان کو کہا جاتا ہے جو مالک اور اس کے غلام یا لونڈی کے درمیان، متعین رقم یک مشت دینا اور اس کی قسطیں کرنا، دونوں طرح جائز ہے۔ لونڈی یا غلام کی مکاتبت کی رقم دوسرا شخص دے سکتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا شخص مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور لونڈی و غلام کو آزاد کر دے تو وہ آزاد ہو جائیں گے، البتہ اس صورت میں اس لونڈی یا غلام کے ولاء کا حق دار آزاد کرنے والا ہو گا نہ کہ پہلا مالک۔ (4) ولاء اس ربط و تعلق کو کہتے ہیں جو آزاد کرنے والے اور آزاد کردہ کے مابین، آزاد کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ تعلق نہ تو بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تعلق بالکل اسی طرح کا ہوتا ہے جیسا کہ باپ اور بیٹے کے درمیان والا تعلق ہوتا ہے جو نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس تعلق کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آزاد کردہ شخص کے عصبہ اور ذوی الفروض (جن کا حصہ میراث مقرر ہے) نہ ہوں تو اس کی تمام جائداد کا مالک آزاد کرنے والا ہوتا ہے۔ (5) اگر کوئی لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کے لیے دستِ سوال دراز کرے تو یہ سوال کرنا درست ہے اور اس سلسلے میں اس کی مدد بھی کرنی چاہیے، نیز اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مستحق آدمی کا اپنی جائز ضرورت یا ضروریات پوری کرنے کی خاطر سوال کرنا درست ہے۔ (6) اس حدیث مبارکہ سے باہمی مشاورت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے خصوصاً میاں بیوی کی باہمی مشاورت کا اثبات ہوتا ہے، نیز اگر بیوی خاوند سے کسی مسئلے میں مشورہ طلب کرے تو خاوند کے لیے ضروری ہے کہ اسے درست مشورہ دے۔ (7) اگر لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا نہ کر سکتے ہوں تو انھیں بیچا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کے الفاظ مبارک اشتريها وَ أعتقيها ہیں، یعنی اسے خریدو اور آزاد کر دو۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، المكاتب، باب المكاتب و نحوه۔۔۔۔۔۔الخ، حديث:۲۵۶۰،و صحيح مسلم، العتق، باب ذكر سعاية العبد، حديث:۱۵۰۴) (8) اگر میاں بیوی دونوں غلام ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ دونوں اکٹھے ہی بیچے جائیں۔ (9) اس حدیث بریرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی یا غلام کے پاس مال وغیرہ نہ ہو، اس سے مکاتبت کرنا، یعنی اسے مکاتب بنانا درست ہے، خواہ اس کے پاس مال کمانے کے وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ (10) مکاتب لونڈی یا غلام اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گے جب تک مکاتبت کے بابت طے شدہ ساری رقم ادا نہ کردیں۔ جب تک ان کے ذمے ایک درہم بھی باقی ہے وہ غلام ہی رہیں گے اور اسی اصل کے مطابق ان پر دیگر احکام جاری ہوں گے، یعنی نکاح، طلاق اور حدود وغیرہ کے احکام غلاموں والے ہی ان پر لاگو ہوں گے۔ (11) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ظابر ہوتا ہے کہ شادی شدہ لونڈی کی فروخت اور آزادی نہ طلاق ہو گی اور نہ فسخ نکاح ہی، اس لیے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو بعد ازاں اختیار دیا گیا تھا کہ چاہے تو وہ اپنے خاوند مغیث کے نکاح میں رہے اور چاہے تو اس سے الگ ہوجائے۔ اس اختیار کے بعد انھوں نے اپنے خاوند سے علیحدگی کو اختیار کیا۔ (12) لونڈی سے اس کا مالک جماع کر سکتا ہے، تاہم اگر وہ کسی کی بیوی ہو تو پھر جائز نہیں، نیز لونڈی کو محض بیچ دینے سے، اس کے ساتھ جماع کرنا حلال نہ ہو گا۔ سیدہ بریرہ کو خاوند کے پاس رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دینا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ابھی تک خاوند کے ساتھ ان کا تعلق باقی تھا۔ اگر کوئی تعلق باقی نہ رہتا تو پھر اختیار کس چیز کا تھا؟ (13) اگر بوقت سوال، سائل مجبور نہیں ہے تو سوال کر سکتا ہے، یعنی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وقت ضرورت کے آنے سے پہلے بھی اس ضرورت کی بابت سوال ہو سکتا ہے۔ (14) شادی شدہ عورت سے مدد اور مالی تعاون مانگا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی مکاتبت کی بابت مالی تعاون مانگا تھا اور انھوں نے اس کی درخواست قبول فرما لی تھی اور بریرہ کو خرید کر اسے آزاد کر دیا تھا۔ (15) شادی شدہ خاتون، اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کر سکتی ہے بشر طیکہ وہ تصرف کسی جائز ضرورت کی خاطر ہو۔ (16) طلب اجر کی خاطر مال خرچ کرنا بلکہ زائد از ضرورت خرچ کرنا درست ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی مکاتبت کی ساری رقم جو نو قسطوں کی نو سال میں ادائیگی کی صورت میں طے ہوئے تھی، یکمشت ادا کر دی اور انھیں اسی وقت آزاد کر دیا۔ (17) غلام اور لونڈی کے لیے اپنی آزادی کی خاطر محنت اور کوشش کرنا جائز ہے، خواہ اس مقصد کے لیے اسے کسی ایسے شخص سے سوال کرنا پڑے جو اسے خرید کر آزاد بھی کر دے۔ ایسا کرنے سے اس کے مالک کا اگر چہ نقصان بھی ہوتا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ اس لیے کہ شارع ﷺ نے غلام کی آزادی کو سراہا اور اس عظیم نیکی کا شوق بھی دلایا ہے، اس لیے اس کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ (18) اگر کوئی شخص لونڈی یا غلام بیچے لیکن یہ شرط لگا لے کہ یہ میری خدمت کرتا رہے گا تو یہ شرط باطل ہو گی۔ (19) اگر مکاتب اپنی قسط کی رقم اس مال سے ادا کرے جو اس پر صدقہ کیا گیا ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں، مالک کو ایسی رقم قبول کرنے سے تامل نہیں کرنا چاہیے اگرچہ وقت مقررہ سے قبل ہی وہ رقم کی ادائیگی کر رہا ہو۔ مکاتب دراصل غلام ہی ہوتا ہے جب تک کہ وہ تمام رقم ادا نہ کر دے اور غلام پر صدقہ کرنا درست ہے۔ جب صدقہ اصل محل تک پہنچ جائے تو وہ مالدار شخص کے استعمال کے لیے جائز ہو جاتا ہے۔ (20) رسول اللہ ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالک ایسی شرط لگا رہے ہیں جو شرعاً درست نہیں تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کسی کا نام لیے بغیر مسئلے کی وضاحت فرمائی اور ایسی ہر شرط کو باطل قرار دیا جو قرآن و حدیث کے منافی ہو۔ اس سے معلوم ہوا جب کوئی اہم شرعی معاملہ در پیش ہو تو کھڑے ہو کر خطبہ دینا مشروع ہے۔ (21) جس شخص سے کوئی غیر شرعی اور منکر کام سرزد ہو تو اس صورت میں غلط کام کرنے والے شخص کا نام لیے بغیر ہی اس کی اصلاح کی جائے۔ اس طرح کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے نہ کہ کسی کو شرمندہ اور رسوا کرنا۔ (22) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی عورتیں کسی شخص کے گھر میں آ سکتی ہیں، خواہ گھر کا مالک مرد اپنے گھر میں موجود ہو یا نہ ہو۔ (23) رسول اللہ ﷺ کے لیے صدقہ مطلقاً حرام ہے۔ آپ پر نہ صدقہ کیا جا سکتا ہے اور نہ آپ صدقے کا مال کھا ہی سکتے ہیں۔ ہاں، اگر صدقہ کسی مستحق پر کر دیا جائے اور وہ نبی ﷺ کو بطور ہد یہ پیش کر دے تو یہ درست ہے۔ (24) غنی اور مالدار شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ محتاج و فقیر کا دیا ہوا ہد یہ قبول کر لے، نیز معلوم ہوا کہ صدقے اور ہدیے کا حکم الگ الگ ہے۔ (25) اگر کسی شخص کو اپنے ہاں کسی شخص کے کھانے سے خوشی ہو تو وہ شخص بلا اجازت بھی اس کے گھر سے کھا پی سکتا ہے۔ (26) ایسا سوال کرنا مستحب ہے جس سے علم حاصل ہوتا ہو یا اس سے ادب ملتا ہو یا کسی قسم کا حکم واضح ہوتا ہو یا اس سے کوئی شبہ رفع ہوتا ہو۔ (27) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی پر تھوڑی چیز صدقہ کی جائے تو اس کو قبول کر لینا چاہیے۔ اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ (28) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو خوش کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب عمل ہے۔ (29)یہ حدیث مبارکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے حسن ادب پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی سفارش واضح انداز میں رد نہیں کی بلکہ یہ کہا ہے کہ مجھے اپنے خاوند مغیث کی حاجت نہیں۔ (30) سفارش کرنے والے کو یقینا اس کی جائز سفارش کرنے کا اجرو ثواب مل جاتا ہے، خواہ اس کی سفارش قبول ہو یا رد کر دی جائے۔ (31) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرطِ محبت انسان کے لیے بڑی آزمائش کا سبب بنتی ہے۔ بسا اوقات اسے بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مدینے کی گلیوں میں ان کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے۔أعاذنا الله منه۔ (32) دو باہم نفرت کرنے والوں کے مابین صلح صفائی کرانا مستحب ہے، خواہ وہ دونوں میاں بیوی ہی ہوں۔ میاں بیوی ہونے کی صورت میں یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے تاکہ بچے والدین کی باہمی نفرت و اختلاف کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ کو حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت سفارش کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا: إنَّهُ أبوولدِكِ”وہ تیرے بچے کا باپ ہے۔“ (33) بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف کرنا بھی جائز ہے۔ (34)شوہر دیدہ خاتون کو مجبور نہیں کرنا چاہیے، خواہ وہ آزاد کردہ ہی کیوں نہ ہو۔ (35) نکاح فسخ ہونے کی صورت میں رجوع نہیں ہو سکتا لیکن نیا نکاح ہو سکتا ہے۔ (36) اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے نفرت کرتی ہو تو اس کے سر پرست کو چاہیے کہ وہ اس عورت کو خاوند کے ساتھ رہنے پر مجبور نہ کرے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو کہ عورت اپنے خاوند سے محبت کرتی ہو تو سر پرست اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان جدائی اور تفریق نہ ڈالے۔ (37) شارحینِ حدیث نے اس حدیث مبارکہ سے کم و بیش ڈیڑھ سو (۱۵۰) فوائد و مسائل کا استنباط کیا ہے لیکن ہم نے بغرض اختصار مذکورہ بالا فوائد و مسائل ہی پر اکتفا کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملا حظہ فرمایے: (ذخيرة العقبىٰ، شرح سنن النسائي للأتيوبي:۹/۲۹-۱۹) اس روایت پر مزید بحث کے لیے دیکھیے، احادیث ۳۴۷۷تا۳۴۸۴۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ ؓ کو خریدا تو ان کے گھر والوں نے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو، کیونکہ ولاء (وراثت) اس کا حق ہے جس نے درہم (روپیہ) دیا ہے“، چنانچہ میں نے انہیں آزاد کر دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلایا اور انہیں ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا ۱؎ تو بریرہ ؓ نے اپنے شوہر کی زوجیت میں نہ رہنے کو ترجیح دی، حالانکہ ان کے شوہر آزاد تھے۔ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی چاہیں تو اس شوہر کی زوجیت میں رہیں جن سے غلامی میں نکاح ہوا تھا، اور چاہیں تو ان کی زوجیت میں نہ رہیں۔ ۲؎ : صحیح واقعہ یہ ہے کہ وہ اس وقت غلام تھے، اسی لیے تو بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا گیا، اگر وہ آزاد ہوتے تو بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا ہی نہیں جاتا، (دیکھئیے حدیث رقم ۲۶۱۵ و ۳۴۷۹) اس حدیث کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء والی شرط کو باطل قرار دے کر باقی معاملہ (بریرہ کی بیع کو) صحیح قرار دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah (RA) said: "I bought Barirah and her masters stipulated that her loyalty (Wala') should be to them, I mentioned that to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and he said: 'Set her free, and loyalty belongs to the one who pays the silver.''' She said: "so I set her free. The Messenger of Allah (ﷺ) called her and gave her the choice regarding her husband, and she chose herself. Her husband was a free man.
حدیث حاشیہ:
الحكم على الحديث
اسم العالم
الحكم
١. فضيلة الشيخ الإمام محمد ناصر الدين الألباني
صحيح دون قوله : " و كان زوجها حرا " فإنه شاذ ، و المحفوظ أنه كان عبدا