Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Something In Which Someone Else Has A Share)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4646.
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شفعہ ہر مشترکہ چیز میں ہو سکتا ہے۔ وہ گھر ہو یا باغ (اور کھیت)۔ کسی ایک شریک کو جائز نہیں (مشترکہ چیز میں اپنا حصہ) فروخت کرے حتیٰ کہ اپنے شریک (ساتھی یا ساتھیوں) کو مطلع کرے۔ اگر وہ بلا اطلاع فروخت کر دے تو شریک اس کو لینے کا حق دار ہو گا الا یہ کہ اسے اطلاع کرنے کے بعد بیچے۔“
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد مشترکہ چیز کی بیع کا حکم بیان کرنا ہے۔ اگر کوئی شریک اپنا حصہ بیچنا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ دیگر شرکاء سے اس کی اجازت لے۔ اگر کوئی شخص اپنے شریک کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ فروخت کر دے تو اس کے شریک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس رقم کے عوض جو اس حصے کی لگ چکی ہو یہ حصہ لے لے۔ اس کا حق دیگر تمام لوگوں سے زیادہ اور فائق ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ شریک کے لیے شفعے کے ثبوت کی صریح دلیل ہے۔ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔ (3) شریعت مطہرہ کے اصول و ضوابط لوگوں کی خیر خواہی پر مبنی ہیں۔ ایک چیز میں مختلف شرکاء باہمی مشاورت اور دوسرے کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی کوئی اقدام کر سکتے ہیں۔ مشترکہ چیز میں بلا مشاورت تصرف کرنے والے کا تصرف معتبر نہیں ہو گا۔ (4) شفعہ سے مراد وہ حق ہے جو ایک شریک کو دوسرے شریک کے حصے پر ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس کی فروخت کی صورت میں وہ اسے خریدنے کا دوسروں سے بڑھ کو حق دار ہو گا۔ لیکن یہ حق مشترکہ چیز ہی میں ہے۔ جب کوئی چیز تقسیم ہو جائے، حد بندی ہو جائے، راستے تک الگ الگ ہو جائیں اور کچھ بھی اشتراک باقی نہ رہے تو یہ حق بھی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اب شریک نہیں رہے، صرف پڑوس کی بنا پر کسی کو یہ حق نہیں مل سکتا۔ یہ مسئلہ تفصیلاً پیچھے بیان ہو چکا ہے۔ (5) ”ہر مشترکہ چیز“ بعض فقہاء نے اشیائے منقولہ کو شفعہ سے خارج کیا ہے مگر اس کی کوئی عقلی توجیہ سمجھ میں نہیں آتی۔ جن وجوہ کی بنا پر شفعہ مشروع کیا گیا ہے وہ منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد میں برابر پائی جاتی ہیں۔ (6) اس روایت سے ثابت ہوا کہ مشترکہ چیز ساری کی ساری بھی بیچی جا سکتی ہے اور اس کے کچھ مخصوص حصے بھی، یعنی کوئی شریک صرف اپنا حصہ بھی فروخت کر سکتا ہے، خواہ شریک کو بیچے یا اس کی اجازت سے کسی اور کو۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4659
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4660
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4650
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شفعہ ہر مشترکہ چیز میں ہو سکتا ہے۔ وہ گھر ہو یا باغ (اور کھیت)۔ کسی ایک شریک کو جائز نہیں (مشترکہ چیز میں اپنا حصہ) فروخت کرے حتیٰ کہ اپنے شریک (ساتھی یا ساتھیوں) کو مطلع کرے۔ اگر وہ بلا اطلاع فروخت کر دے تو شریک اس کو لینے کا حق دار ہو گا الا یہ کہ اسے اطلاع کرنے کے بعد بیچے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد مشترکہ چیز کی بیع کا حکم بیان کرنا ہے۔ اگر کوئی شریک اپنا حصہ بیچنا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ دیگر شرکاء سے اس کی اجازت لے۔ اگر کوئی شخص اپنے شریک کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ فروخت کر دے تو اس کے شریک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس رقم کے عوض جو اس حصے کی لگ چکی ہو یہ حصہ لے لے۔ اس کا حق دیگر تمام لوگوں سے زیادہ اور فائق ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ شریک کے لیے شفعے کے ثبوت کی صریح دلیل ہے۔ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔ (3) شریعت مطہرہ کے اصول و ضوابط لوگوں کی خیر خواہی پر مبنی ہیں۔ ایک چیز میں مختلف شرکاء باہمی مشاورت اور دوسرے کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی کوئی اقدام کر سکتے ہیں۔ مشترکہ چیز میں بلا مشاورت تصرف کرنے والے کا تصرف معتبر نہیں ہو گا۔ (4) شفعہ سے مراد وہ حق ہے جو ایک شریک کو دوسرے شریک کے حصے پر ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس کی فروخت کی صورت میں وہ اسے خریدنے کا دوسروں سے بڑھ کو حق دار ہو گا۔ لیکن یہ حق مشترکہ چیز ہی میں ہے۔ جب کوئی چیز تقسیم ہو جائے، حد بندی ہو جائے، راستے تک الگ الگ ہو جائیں اور کچھ بھی اشتراک باقی نہ رہے تو یہ حق بھی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اب شریک نہیں رہے، صرف پڑوس کی بنا پر کسی کو یہ حق نہیں مل سکتا۔ یہ مسئلہ تفصیلاً پیچھے بیان ہو چکا ہے۔ (5) ”ہر مشترکہ چیز“ بعض فقہاء نے اشیائے منقولہ کو شفعہ سے خارج کیا ہے مگر اس کی کوئی عقلی توجیہ سمجھ میں نہیں آتی۔ جن وجوہ کی بنا پر شفعہ مشروع کیا گیا ہے وہ منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد میں برابر پائی جاتی ہیں۔ (6) اس روایت سے ثابت ہوا کہ مشترکہ چیز ساری کی ساری بھی بیچی جا سکتی ہے اور اس کے کچھ مخصوص حصے بھی، یعنی کوئی شریک صرف اپنا حصہ بھی فروخت کر سکتا ہے، خواہ شریک کو بیچے یا اس کی اجازت سے کسی اور کو۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شفعہ کا حق ہر چیز میں ہے، زمین ہو یا کوئی احاطہٰ (باغ وغیرہ)، کسی حصہ دار کے لیے جائز نہیں کہ اپنے دوسرے حصہ دار کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ بیچے، اگر اس نے بیچ دیا تو وہ (دوسرا حصہ دار) اس کا زیادہ حقدار ہو گا یہاں تک کہ وہ خود اس کی اجازت دیدے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «شفعة» : زمین، باغ گھر وغیرہ میں ایسی ساجھے داری کو کہتے ہیں جس میں کسی فریق کا حصہ متعین نہ ہو کہ ہمارا حصہ یہاں سے یہاں تک ہے اور دوسرے کا حصہ یہاں سے یہاں تک ہے بس مطلق ملکیت میں سب کی ساجھے داری ہو، ایسا ساجھے دار اگر اپنا حصہ بیچنا چاہتا ہے تو دوسرے شریک کو پہلے بتائے، اگر وہ اسی قیمت پر لینے پر راضی ہو جائے تو اسی کا حق ہے، اگر جازت دیدے تب دوسرے سے بیچنا جائز ہو گا، اور اگر اس کی اجازت کے بغیر بیچ دیا تو وہ اس بیع کو قاضی منسوخ کرا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Pre-emption is to be given in everything that is shared, whether it is a house or a garden. It is not right to sell it before informing one's partner, and if he sells it he (the partner) has more right to it, unless he gives Permission to sell it to someone else.