باب: ایک آدمی کوئی چیز خریدتا ہے پھر مفلس ہو جات اہے اور چیز بعینہ اس کے پاس پائی جاتی ہے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: If A Man Buy A Product Then Becomes Bankrupt, And The Product Itself Is Found With Him)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4678.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں ایک آدمی کے ان پھلوں کا نقصان ہوگیا جو اس نے خریدے تھے۔ اس طرح اس پر بہت قرض چڑھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس پر صدقہ کرو۔“ لوگوں نے اس پر صدقہ کیا مگر اس سے اس کا پورا قرض ادا نہیں ہو سکتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے (اس کے قرض خواہوں سے) فرمایا: ”جو ملتا ہے لے لو، تمھیں اور کچھ نہیں ملے گا۔“
تشریح:
کسی کے مفلس ہونے کا فیصلہ حکومت کرتی ہے۔ افلاس کے احکام اس وقت لاگو ہوں گے جب حکومنت اس کے افلاس کا باقاعدہ اعلان کر دے۔ کوئی شخص بذات خود اپنے آپ کو مفلس قرار نہیں دے سکتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4691
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4692
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4682
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں ایک آدمی کے ان پھلوں کا نقصان ہوگیا جو اس نے خریدے تھے۔ اس طرح اس پر بہت قرض چڑھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس پر صدقہ کرو۔“ لوگوں نے اس پر صدقہ کیا مگر اس سے اس کا پورا قرض ادا نہیں ہو سکتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے (اس کے قرض خواہوں سے) فرمایا: ”جو ملتا ہے لے لو، تمھیں اور کچھ نہیں ملے گا۔“
حدیث حاشیہ:
کسی کے مفلس ہونے کا فیصلہ حکومت کرتی ہے۔ افلاس کے احکام اس وقت لاگو ہوں گے جب حکومنت اس کے افلاس کا باقاعدہ اعلان کر دے۔ کوئی شخص بذات خود اپنے آپ کو مفلس قرار نہیں دے سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص کے پھلوں پر جو اس نے خریدے تھے آفت آ گئی اور اس کا قرض بہت زیادہ ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس پر صدقہ کرو“، چنانچہ لوگوں نے اس پر صدقہ کیا، اس کی مقدار اتنی نہ ہو سکی کہ اس کا قرض پورا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو تمہیں ملے لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : جب حاکم موجودہ مال کو قرض خواہوں کے مابین بقدر حصہ تقسیم کر دے پھر بھی اس شخص کے ذمہ قرض خواہوں کا قرض باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں قرض خواہ اسے تنگ کرنے، قید کرنے اور قرض کی ادائیگی پر مزید اصرار کرنے کے بجائے اسے مال کی فراہمی تک مہلت دے۔ حدیث کا مفہوم یہی ہے اور قرآن کی اس آیت «وإنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ» کے مطابق بھی ہے کیونکہ کسی کے مفلس ہو جانے سے قرض خواہوں کے حقوق ضائع نہیں ہوتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), that: if a man becomes bankrupt, then a specific item is found with him, and is recognized, then it belongs to the one who sold it to him.