Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Borrowing)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4683.
حضرت عبداللہ بن ابو ربیعہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے چالیس ہزار (درہم) قرض لیے، پھر آپ کے پاس کہیں سے مال آیا۔ آپ نے میرا قرض میرے سپرد کیا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تیرے اہل ومال میں برکت فرمائے۔ قرض کا بدلہ تعریف اور ادائیگی ہے۔“
تشریح:
(1) ضرورت کے تحت قرض لینا جائز ہے۔ لیکن اس کی ادائیگی کی فکر بھی رہنی چاہیے، وسعت ہونے یا وقت مقررہ آنے پر فوراً ادائیگی کرنی چاہیے۔ اس بارے میں ہمیشہ احسان ہی سے کام لیا جائے، یعنی بروقت اور مکمل ادائیگی، اچھے انداز میں کی جائے۔ اگر کوئی شخص اپنے ذمے قرض سے، قرض خواہ کے مطالبے کے بغیر زیادہ ادائیگی کر دے تو یہ بہترین ادائیگی کے ساتھ ساتھ احسان بھی ہے۔ صاحب ثروت لوگوں کو اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ (2) مقروض کو چاہیے کہ ادائیگی کے وقت بالخصوص اور عام اوقات میں بالعموم قرض خواہ کے لیے دعائیں کرتا رہے۔ قرض خواہ کو دعائیں دینا اور اس کا شکریہ ادا کرنا بھی احسن انداز سے ادائیگی میں شامل ہے، خصوصاً اس کے اہل وعیال اور مال ومتاع اور کاروبار میں برکت کی دعا دینا مسنون عمل ہے۔ (3) ضرورت کے وقت قرض لینا جائز ہے، خصوصاً قومی ضروریات کے لیے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ قرض بھی قومی ضرورت کے لیے تھا نہ کہ ذاتی ضرورت کے لیے۔ مذمت بلا ضرورت قرض لینے کی ہے یا جب قرض لیتے وقت ادائیگی کی نیت نہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4696
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4697
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4687
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عبداللہ بن ابو ربیعہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے چالیس ہزار (درہم) قرض لیے، پھر آپ کے پاس کہیں سے مال آیا۔ آپ نے میرا قرض میرے سپرد کیا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تیرے اہل ومال میں برکت فرمائے۔ قرض کا بدلہ تعریف اور ادائیگی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ضرورت کے تحت قرض لینا جائز ہے۔ لیکن اس کی ادائیگی کی فکر بھی رہنی چاہیے، وسعت ہونے یا وقت مقررہ آنے پر فوراً ادائیگی کرنی چاہیے۔ اس بارے میں ہمیشہ احسان ہی سے کام لیا جائے، یعنی بروقت اور مکمل ادائیگی، اچھے انداز میں کی جائے۔ اگر کوئی شخص اپنے ذمے قرض سے، قرض خواہ کے مطالبے کے بغیر زیادہ ادائیگی کر دے تو یہ بہترین ادائیگی کے ساتھ ساتھ احسان بھی ہے۔ صاحب ثروت لوگوں کو اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ (2) مقروض کو چاہیے کہ ادائیگی کے وقت بالخصوص اور عام اوقات میں بالعموم قرض خواہ کے لیے دعائیں کرتا رہے۔ قرض خواہ کو دعائیں دینا اور اس کا شکریہ ادا کرنا بھی احسن انداز سے ادائیگی میں شامل ہے، خصوصاً اس کے اہل وعیال اور مال ومتاع اور کاروبار میں برکت کی دعا دینا مسنون عمل ہے۔ (3) ضرورت کے وقت قرض لینا جائز ہے، خصوصاً قومی ضروریات کے لیے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ قرض بھی قومی ضرورت کے لیے تھا نہ کہ ذاتی ضرورت کے لیے۔ مذمت بلا ضرورت قرض لینے کی ہے یا جب قرض لیتے وقت ادائیگی کی نیت نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن ابی ربیعہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے چالیس ہزار قرض لیے، پھر آپ کے پاس مال آیا تو آپ نے مجھے ادا کر دئیے، اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں، تمہارے گھر والوں اور تمہارے مال میں برکت عطا فرمائے، قرض کا بدلہ تو شکریہ ادا کرنا اور قرض ادا کرنا ہی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Sammurah that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "If a woman is married off by two guardians, then the first marriage is the one that counts, and if a man sells something to two men, it belongs to the first one.