Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Al-Qisas For A Front Tooth)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4756.
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری پھوپھی نے ایک لڑکی کا سامنے والا دانت توڑ دیا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ ان کے بھائی انس بن نضر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا: کیا اس کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو سچا نبی بنایا ہے! اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ اس سے پہلے انھوں نے اس لڑکی کے گھر والوں سے معافی اور دیت کی گزارش کی تھی (مگر وہ نہ مانے تھے)۔ پھر جب ان کے بھائی، جو حضرت انس کے چچا تھے اور جنگ احد میں شہید ہوئے، نے قسم کھا لی تو وہ لوگ معافی پر راضی ہو گئے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے (بلند مرتبہ) ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان (کی قسم) کو سچا کر دیتا ہے۔“
تشریح:
یہ روایت سابقہ روایت سے مختلف ہے۔ اس میں ہے کہ دانت توڑنے والی عورت، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پھوپھی اور حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہن، حضرت ربیع رضی اللہ عنہا خود ہیں جبکہ سابقہ روایت میں ان (ربیع) کی بہن ام حارثہ کو زخمی کرنے والی کہا گیا ہے۔ دوسرا اختلاف یہ ہے کہ اس روایت کے مطابق قسم کھانے والی ام ربیع کو کہا گیا ہے۔ ظاہراً ان دونوں حدیثوں میں تضاد ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے پورے وثوق سے کہا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، تاہم ایک ہی عورت سے سرزد ہوئے ہیں، یعنی ایک دفعہ انھوں نے کسی کو زخمی کیا تو قسم ان کی والدہ نے اٹھائی اور جب دانت توڑے تو قسم کھانے والے ان کے بھائی تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ ایک ربیع کا اور دوسرا ان کی بہن کا۔ ربیع نے کسی کا دانت توڑا تو قسم ان کے بھائی نے کھائی اور ان کی بہن ام حارثہ نے کسی انسان کو زخمی کیا تو اس وقت قسم کھانے والی ان کی والدہ تھیں۔ امام نووی رحمہ اللہ کی تطبیق ہی راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ احادیث کے ظاہر الفاظ کے قریب تر ہے۔ واللہ أعلم! مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي: للأتبوبي: ۳۶/ ۶۰)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4769
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4770
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4760
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری پھوپھی نے ایک لڑکی کا سامنے والا دانت توڑ دیا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ ان کے بھائی انس بن نضر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا: کیا اس کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو سچا نبی بنایا ہے! اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ اس سے پہلے انھوں نے اس لڑکی کے گھر والوں سے معافی اور دیت کی گزارش کی تھی (مگر وہ نہ مانے تھے)۔ پھر جب ان کے بھائی، جو حضرت انس کے چچا تھے اور جنگ احد میں شہید ہوئے، نے قسم کھا لی تو وہ لوگ معافی پر راضی ہو گئے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے (بلند مرتبہ) ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان (کی قسم) کو سچا کر دیتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سابقہ روایت سے مختلف ہے۔ اس میں ہے کہ دانت توڑنے والی عورت، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پھوپھی اور حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہن، حضرت ربیع رضی اللہ عنہا خود ہیں جبکہ سابقہ روایت میں ان (ربیع) کی بہن ام حارثہ کو زخمی کرنے والی کہا گیا ہے۔ دوسرا اختلاف یہ ہے کہ اس روایت کے مطابق قسم کھانے والی ام ربیع کو کہا گیا ہے۔ ظاہراً ان دونوں حدیثوں میں تضاد ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے پورے وثوق سے کہا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، تاہم ایک ہی عورت سے سرزد ہوئے ہیں، یعنی ایک دفعہ انھوں نے کسی کو زخمی کیا تو قسم ان کی والدہ نے اٹھائی اور جب دانت توڑے تو قسم کھانے والے ان کے بھائی تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ ایک ربیع کا اور دوسرا ان کی بہن کا۔ ربیع نے کسی کا دانت توڑا تو قسم ان کے بھائی نے کھائی اور ان کی بہن ام حارثہ نے کسی انسان کو زخمی کیا تو اس وقت قسم کھانے والی ان کی والدہ تھیں۔ امام نووی رحمہ اللہ کی تطبیق ہی راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ احادیث کے ظاہر الفاظ کے قریب تر ہے۔ واللہ أعلم! مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي: للأتبوبي: ۳۶/ ۶۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ نے ذکر کیا کہ ان کی پھوپھی نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دیے، تو نبی اکرم ﷺ نے قصاص کا فیصلہ کیا، ان کے بھائی انس بن نضر ؓ نے کہا: کیا فلاں کا دانت توڑا جائے گا؟ نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، فلاں کے دانت نہیں توڑے جائیں گے، اور وہ لوگ اس سے پہلے اس کے گھر والوں سے معافی اور دیت کی بات کر چکے تھے، پھر جب ان کے بھائی نے قسم کھائی (وہ انس ؓ کے چچا تھے، جو احد کے دن شہید ہوئے) تو وہ لوگ معاف کرنے پر راضی ہو گئے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں جو اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا لیں تو اللہ انہیں سچا کر دکھاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas narrated that: his paternal aunt broke the front tooth of a girl and the Prophet of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) decreed retaliation. Her brother, Anas bin An-Nadr, said: "Will you break the front tooth of so and so? No, by the One Who sent you with the truth, the front tooth of so and so will not be broken!" Before that, they had asked her family for forgiveness and blood money. When her brother - who was the paternal uncle of Anas and was martyred at Uhud - swore that oath, the people agreed to forgive. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "There are among the slaves of Allah who, if they swear by Allah, Allah fulfills their oath.