باب: دانت کاٹنے کے قصاص اور عمران بن حصین کی روایت میں ناقلین حدیث کے اختلافِ الفاظ کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Retaliation For A Bite And Mentioning The Differences In The Report Of The Narrators Of The Narration Of 'Imran bin Husain Concerning That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4758.
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کے سامنے والا ایک دانت اکھڑ گیا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں اس کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: ”تو کیا چاہتا ہے؟ کیا تو چاہتا ہے کہ میں اسے کہوں کہ وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں دیے رکھے اور تو اسے چباتا رہے، جیسے اونٹ چباتا ہے؟ اگر تو چاہتا ہے تو اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے تاکہ وہ اسے چبائے۔ پھر تو چاہے تو اپنا ہاتھ کھینچ لینا۔“
تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو دانت کاٹے اور دوسرا شخص، کاٹنے والے کے منہ سے اپنا ہاتھ کھینچ لے جس کی وجہ سے دانت کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ جائے تو اس کا کوئی قصاص نہیں ہوگا۔ اگر اس میں قصاص واجب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ قصاص لے کر دیتے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ فیصلہ کرانے کے لیے حاکم وقت کے پاس مقدمہ پیش کرنا درست ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ انسان خود بخود ہی قصاص لینا شروع نہ کر دے۔ ایسا کرنے سے ظلم وزیادتی اور شر وفساد پھیلنے کا اندیشہ ہے جس سے معاشرے کا امن وامان تباہ ہوگا۔ (3) بوقت ضرورت آدمی کو جانور کے ساتھ تشبیہ دینا جائز ہے۔ اس کا اصل مقصد ایسے برے فعل سے نفرت دلانا ہوتا ہے جو اس کے شایانِ شان نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے اس غلط کام کو جانور کے کام کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حملہ آور سے اپنا دفاع کرنا، شرعاً درست اور جائز ہے۔ بالخصوص جب اس کے بغیر خلاصی ناممکن ہو۔ اس دوران حملہ آور کا اگر کوئی عضو ضائع بھی ہو جائے تو دفاع کرنے والے سے قصاص نہیں لیا جائے گا جیسا کہ حدیث میں مذکور ہاتھ چبانے والے شخص کا دانت اکھڑ گیا اور آپ نے اس کی کوئی قیمت نہ لگائی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4771
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4772
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4762
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کے سامنے والا ایک دانت اکھڑ گیا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں اس کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: ”تو کیا چاہتا ہے؟ کیا تو چاہتا ہے کہ میں اسے کہوں کہ وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں دیے رکھے اور تو اسے چباتا رہے، جیسے اونٹ چباتا ہے؟ اگر تو چاہتا ہے تو اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے تاکہ وہ اسے چبائے۔ پھر تو چاہے تو اپنا ہاتھ کھینچ لینا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو دانت کاٹے اور دوسرا شخص، کاٹنے والے کے منہ سے اپنا ہاتھ کھینچ لے جس کی وجہ سے دانت کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ جائے تو اس کا کوئی قصاص نہیں ہوگا۔ اگر اس میں قصاص واجب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ قصاص لے کر دیتے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ فیصلہ کرانے کے لیے حاکم وقت کے پاس مقدمہ پیش کرنا درست ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ انسان خود بخود ہی قصاص لینا شروع نہ کر دے۔ ایسا کرنے سے ظلم وزیادتی اور شر وفساد پھیلنے کا اندیشہ ہے جس سے معاشرے کا امن وامان تباہ ہوگا۔ (3) بوقت ضرورت آدمی کو جانور کے ساتھ تشبیہ دینا جائز ہے۔ اس کا اصل مقصد ایسے برے فعل سے نفرت دلانا ہوتا ہے جو اس کے شایانِ شان نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے اس غلط کام کو جانور کے کام کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حملہ آور سے اپنا دفاع کرنا، شرعاً درست اور جائز ہے۔ بالخصوص جب اس کے بغیر خلاصی ناممکن ہو۔ اس دوران حملہ آور کا اگر کوئی عضو ضائع بھی ہو جائے تو دفاع کرنے والے سے قصاص نہیں لیا جائے گا جیسا کہ حدیث میں مذکور ہاتھ چبانے والے شخص کا دانت اکھڑ گیا اور آپ نے اس کی کوئی قیمت نہ لگائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ لیا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا، تو اس کا ایک دانت ٹوٹ کر گر گیا (یا دو دانت) اس نے رسول اللہ ﷺ سے فریاد کی، تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”تم مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہو؟ کیا یہ کہ میں اسے حکم دوں کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دئیے رہے تاکہ تم اسے جانور کی طرح چبا ڈالو، اگر تم چاہو تو اپنا ہاتھ اسے دو تاکہ وہ اسے چبائے پھر اگر چاہو تو اسے کھینچ لینا۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی کسی کا ہاتھ اپنے دانتوں سے کاٹنے لگے اور وہ اپنا ہاتھ زور سے کھینچ لے جس کی وجہ سے اس کے دانت ٹوٹ جائیں تو ان دانتوں کا قصاص (یا دیت) ہاتھ کھینچنے والے سے نہیں لیا جائے گا، یہ بات صرف دانت کھینچنے میں ہی نہیں اس جیسے دیگر معاملات میں بھی ہو گی۔ دیکھئیے اسی حدیث پر مولف کا باب باندھنا «الرجل یدفع عن نفسه»(حدیث نمبر: ۴۷۶۷)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Imran bin Hussain that: a man bit the hand of another man, who pulled his hand away, and the man's front tooth (or from teeth) fell out. He complained about that to the Messenger of Allah (ﷺ), and the Messenger of Allah said: "What do you want? Do you want me to tell him to put his hand in your mouth, so that you can bite it like a stallion bites? Or, do you want to give him your hand so that he may bite it, then you can pull it away if you want?