Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Intervention of the Ruler)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4778.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو صدقہ لینے کے لیے بھیجا۔ ایک آدمی نے صدقہ دینے کے بارے میں جھگڑا کیا تو حضرت ابو جہم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو مارا۔ وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں قصاص چاہیے۔ آپ نے فرمایا: ”تمھیں اتنا معاوضہ دیتا ہوں۔“ وہ راضی نہ ہوئے۔ آپ نے فرمایا: ”اچھا تم اتنا (اور) لے لو۔“ آخر وہ راضی ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں لوگوں کے سامنے خطبہ دے کر انھیں تمھارے راضی ہونے کی خبر دیتا ہوں۔“ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا: ”یہ لوگ میرے پاس قصاص لینے آئے تھے۔ میں نے انھیں اتنے مال کی پیش کش کی تو یہ راضی ہوگئے ہیں۔“ لیکن وہ لوگ کہنے لگے: ہم راضی نہیں۔ مہاجرین نے ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا لیکن آپ نے ان کو روک دیا۔ وہ رک گئے۔ آپ نے پھر ان کو بلایا اور فرمایا: ”کیا تم اب راضی ہو؟“ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”میں پھر لوگوں سے خطاب کروں گا اور انھیں بتاؤں گا کہ تم راضی ہوگئے ہو۔“ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ آپ نے لوگوں سے سے خطاب فرمایا اور ان سے پوچھا: ”تم راضی ہو؟“ انھوں نے کہا: جی ہاں۔
تشریح:
(1) اگر بادشاہ اور کوئی صاحب اختیار واقتدار حکمران کسی کے ساتھ اس قسم کی زیادتی اور مار کٹائی والا معاملہ کرے جیسا کہ حضرت ابو جہم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا تھا تو اس سے قصاص لیا جا سکتا ہے، تاہم فریق ثانی کو کچھ دے دلا کر بھی معاملہ رفع دفع کیا جا سکتا ہے۔ (2) دیہاتی طبعاً سخت مزاج ہوتے ہیں اور لا علم بھی، اس لیے انھوں نے اس طرح کا رویہ اختیار کیا۔ رسول اکرم ﷺ نے ان کی جہالت کی وجہ سے ان کے رویے سے درگزر فرمایا جو آپ کی وسعت ظرفی اور حسن اخلاق کی دلیل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل علم کو عوام الناس کی بے ادبیوں کو صبر اور اخلاق سے برداشت کرنا چاہیے اور اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ (3) اس روایت کو دیگر محققین نے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابن ماجه (مترجم) طبع، دارالسلام، حدیث: ۲۶۳۸)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4791
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4792
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4782
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو صدقہ لینے کے لیے بھیجا۔ ایک آدمی نے صدقہ دینے کے بارے میں جھگڑا کیا تو حضرت ابو جہم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو مارا۔ وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں قصاص چاہیے۔ آپ نے فرمایا: ”تمھیں اتنا معاوضہ دیتا ہوں۔“ وہ راضی نہ ہوئے۔ آپ نے فرمایا: ”اچھا تم اتنا (اور) لے لو۔“ آخر وہ راضی ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں لوگوں کے سامنے خطبہ دے کر انھیں تمھارے راضی ہونے کی خبر دیتا ہوں۔“ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا: ”یہ لوگ میرے پاس قصاص لینے آئے تھے۔ میں نے انھیں اتنے مال کی پیش کش کی تو یہ راضی ہوگئے ہیں۔“ لیکن وہ لوگ کہنے لگے: ہم راضی نہیں۔ مہاجرین نے ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا لیکن آپ نے ان کو روک دیا۔ وہ رک گئے۔ آپ نے پھر ان کو بلایا اور فرمایا: ”کیا تم اب راضی ہو؟“ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”میں پھر لوگوں سے خطاب کروں گا اور انھیں بتاؤں گا کہ تم راضی ہوگئے ہو۔“ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ آپ نے لوگوں سے سے خطاب فرمایا اور ان سے پوچھا: ”تم راضی ہو؟“ انھوں نے کہا: جی ہاں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگر بادشاہ اور کوئی صاحب اختیار واقتدار حکمران کسی کے ساتھ اس قسم کی زیادتی اور مار کٹائی والا معاملہ کرے جیسا کہ حضرت ابو جہم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا تھا تو اس سے قصاص لیا جا سکتا ہے، تاہم فریق ثانی کو کچھ دے دلا کر بھی معاملہ رفع دفع کیا جا سکتا ہے۔ (2) دیہاتی طبعاً سخت مزاج ہوتے ہیں اور لا علم بھی، اس لیے انھوں نے اس طرح کا رویہ اختیار کیا۔ رسول اکرم ﷺ نے ان کی جہالت کی وجہ سے ان کے رویے سے درگزر فرمایا جو آپ کی وسعت ظرفی اور حسن اخلاق کی دلیل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل علم کو عوام الناس کی بے ادبیوں کو صبر اور اخلاق سے برداشت کرنا چاہیے اور اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ (3) اس روایت کو دیگر محققین نے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابن ماجه (مترجم) طبع، دارالسلام، حدیث: ۲۶۳۸)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوجہم بن حذیفہ ؓ کو زکاۃ لینے کے لیے بھیجا تو ایک شخص اپنے صدقے کے سلسلے میں ان سے لڑ گیا، تو ابوجہم نے اسے مار دیا، ان لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! بدلہ دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”اتنا اتنا مال لے لو“، وہ اس پر راضی نہ ہوئے، تو آپ نے فرمایا: ”(اچھا ) اتنا اتنا مال لے لو“، تو وہ اس پر راضی ہو گئے، پھر آپ نے فرمایا: ”میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں تمہاری رضا مندی کی اطلاع دوں گا“، ان لوگوں نے کہا : ٹھیک ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے خطاب کیا اور فرمایا: ”یہ لوگ میرے پاس قصاص مانگنے آئے تھے تو میں نے ان پر اتنے اتنے مال کی پیش کش کی ہے اور وہ اس پر راضی ہیں“، لیکن وہ لوگ بولے: نہیں، تو مہاجرین نے انہیں سزا دینے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں ٹھہر جانے کا حکم دیا، چنانچہ وہ لوگ باز رہے، پھر آپ نے انہیں بلایا اور فرمایا: ”کیا تم رضامند ہو؟“ وہ بولے: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور تمہاری رضا مندی کی انہیں اطلاع دوں گا“، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ آپ نے لوگوں سے خطاب کیا پھر (ان سے) فرمایا: ”کیا تم اس پر راضی ہو؟“ وہ بولے: جی ہاں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے «العامل یصاب علی یدہ خطأ» یعنی ”عامل کے ذریعہ کسی کو غلطی سے زخم لگ جائے“ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری عامل ہونے کی وجہ سے قصاص معاف نہیں ہو گا، ہاں دیت پر راضی ہو جانے کی صورت میں سرکاری بیت المال سے دیت دلوائی جائے گی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah (RA) that: the Messenger of Allah (ﷺ) sent Abu Jahm bin Hudhaifah to collect Zakah and a man argued with him about his Sadaqah, so Abu Jahm struck him. They came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and he said: "Diyah, O Messenger of Allah." He said: "You will have such and such," but they did not accept it. The Messenger of Allah (ﷺ) said: "You will have such and such," and they accepted it. The Messenger of Allah (ﷺ) said: "I am going to address the people and tell them that you accepted it." They said: "Yes." So the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) addressed (the people) and said: "Those people came to me seeking compensation, and I offered them such as such, and they accepted." They said: "No." The Muhajirun wanted to attack them, but the Messenger of Allah (ﷺ) ordered them to refrain, so they refrained. Then he called them and said: "Do you accept?" They said:" Yes." He said: "I am going to address the people and tell them that you accepted it." They said: "Yes." So the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) addressed (the people), then he said: "Do you accept?" They said: "Yes.