باب: تیز دھار آلے کی بجائے کسی اور چیز سے قصاص لینا
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Retaliation With Something Other Than The Sword)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4780.
حضرت قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خثعم قبیلے کی طرف ایک لشکر بھیجا۔ وہ سجدے میں پڑ گئے تاکہ جان بچا سکیں لیکن وہ بھی مارے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی نصف دیت ادا فرمائی اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے لا تعلق ہوں جو کافروں میں رہتا ہے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خبردار! مسلمان اور کافر اتنے دور رہیں کہ انھیں ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے۔“
تشریح:
(1) ”وہ سجدے میں گر پڑے“ یعنی ان میں سے کچھ لوگ جو مسلمان تھے لیکن کسی کو ان کے اسلام کا علم نہیں تھا، انھوں نے سجدے کو اپنے اسلام کے اظہار کا ذریعہ بنایا مگر جنگ کی بھیڑ بھاڑ میں اس کا پتا نہ چلا اور وہ بھی مارے گئے۔ اس میں مقتولین کا بھی قصور تھا کہ وہ مشرکین میں رہ رہے تھے، اس لیے آپ نے ان کی دیت نصف ادا فرمائی۔ اور پھر تنبیہ فرما دی کہ مسلمانوں اور مشرکین کو اکٹھا نہیں رہنا چاہیے، خصوصاً اس حالت میں کہ جب ان میں امتیاز بھی نہ ہو بلکہ مسلمانوں کو مشرکین سے اتنا دور رہنا چاہیے کہ ایک دوسرے کی آگ بھی نظر نہ آئے۔ گویا الگ بستی میں رہنا چاہیے۔ مسلمانوں کی آبادی الگ ہونی چاہیے اور کفار کی الگ تاکہ حملے کی صورت میں امتیاز ہو سکے۔ (2) اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں، البتہ کتاب سے تعلق ہے کہ اگر لا علمی یا خطا میں کوئی مسلمان مارا جائے تو اس کی دیت ادا کرنی ہوگی۔ واللہ أعلم! (3) جب کوئی شخص اپنے اسلام کا اظہار کر دے تو پھر اسے قتل کرنا حرام ہے، خواہ وہ کافروں ہی میں رہتا ہو۔ (4) بلا ضرورت دارالحرب میں رہنا درست نہیں۔ بالخصوص وہاں مستقل رہائش اختیار کرنا بالکل جائز نہیں۔ (5) محقق کتاب نے اگرچہ اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محققین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اسے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انھی کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۵/ ۲۹-۳۳، و ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۳۶/ ۱۱۴-۱۱۸) (6) مزید فوائد ومسائل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ (سنن ابوداود مترجم طبع دارالسلام، حدیث: ۲۶۴۵)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4793
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4794
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4784
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خثعم قبیلے کی طرف ایک لشکر بھیجا۔ وہ سجدے میں پڑ گئے تاکہ جان بچا سکیں لیکن وہ بھی مارے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی نصف دیت ادا فرمائی اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے لا تعلق ہوں جو کافروں میں رہتا ہے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خبردار! مسلمان اور کافر اتنے دور رہیں کہ انھیں ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”وہ سجدے میں گر پڑے“ یعنی ان میں سے کچھ لوگ جو مسلمان تھے لیکن کسی کو ان کے اسلام کا علم نہیں تھا، انھوں نے سجدے کو اپنے اسلام کے اظہار کا ذریعہ بنایا مگر جنگ کی بھیڑ بھاڑ میں اس کا پتا نہ چلا اور وہ بھی مارے گئے۔ اس میں مقتولین کا بھی قصور تھا کہ وہ مشرکین میں رہ رہے تھے، اس لیے آپ نے ان کی دیت نصف ادا فرمائی۔ اور پھر تنبیہ فرما دی کہ مسلمانوں اور مشرکین کو اکٹھا نہیں رہنا چاہیے، خصوصاً اس حالت میں کہ جب ان میں امتیاز بھی نہ ہو بلکہ مسلمانوں کو مشرکین سے اتنا دور رہنا چاہیے کہ ایک دوسرے کی آگ بھی نظر نہ آئے۔ گویا الگ بستی میں رہنا چاہیے۔ مسلمانوں کی آبادی الگ ہونی چاہیے اور کفار کی الگ تاکہ حملے کی صورت میں امتیاز ہو سکے۔ (2) اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں، البتہ کتاب سے تعلق ہے کہ اگر لا علمی یا خطا میں کوئی مسلمان مارا جائے تو اس کی دیت ادا کرنی ہوگی۔ واللہ أعلم! (3) جب کوئی شخص اپنے اسلام کا اظہار کر دے تو پھر اسے قتل کرنا حرام ہے، خواہ وہ کافروں ہی میں رہتا ہو۔ (4) بلا ضرورت دارالحرب میں رہنا درست نہیں۔ بالخصوص وہاں مستقل رہائش اختیار کرنا بالکل جائز نہیں۔ (5) محقق کتاب نے اگرچہ اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محققین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اسے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انھی کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۵/ ۲۹-۳۳، و ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۳۶/ ۱۱۴-۱۱۸) (6) مزید فوائد ومسائل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ (سنن ابوداود مترجم طبع دارالسلام، حدیث: ۲۶۴۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ خثعم کے کچھ لوگوں کی طرف (فوج کی) ایک ٹکڑی بھیجی، تو انہوں نے سجدہ کر کے اپنے کو بچانا چاہا، پھر بھی وہ سب قتل کر دئیے گئے، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی آدھی دیت ادا کی ۱؎ اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرک کے ساتھ رہے“ ۲؎، پھر آپ نے فرمایا: سنو! (مسلمان اور کافر اس حد تک دور رہیں کہ) ان دونوں کو ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے۔ ۳؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : آدھی دیت کا حکم دیا اور باقی آدھی کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہو گئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا درحقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں آدھی دیت ساقط ہو گئی۔ ۲؎ : اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علاحدہ کر دیا ہے لہٰذا مسلمان کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل و صورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے۔ ۳؎ : اس حدیث کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں، ممکن ہے اس سے پہلے والے باب کی حدیث ہو اور نساخ کے تصرف سے اس باب کے تحت آ گئی ہو، اور اس حدیث کا مصداق ساری دنیا کے مسلمان نہیں ہیں کہ وہ ہر ملک میں کافروں سے الگ سکونت اختیار کریں، اس زمانہ میں تو یہ ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے، اس کا مصداق ایسے علاقے ہیں جہاں اسلامی حکومت ہو، اور سارے حالات و اختیارات مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاء راشدین وغیرہ کے عہدوں میں تھا، اور آج سعودیہ اور دیگر مسلم ممالک میں ہے، بعض مسلم ممالک کے اندر بھی موجودہ حالات میں الگ تھلگ رہائش مشکل ہے، «لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا»(سورة البقرة: ۲۸۶)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas that: the Messenger of Allah (ﷺ) sent a detachment jof troops to some people of Khath'am, who sought to protect themselves by prostrating (to demonstrate that they were Muslims), but they were killed. The Messenger of Allah (ﷺ) ruled that half the Diyah should be paid, and said: "I am innocent of any Muslim who (lives with) a Mushrik.' Then the Messenger of Allah (ﷺ) said: "Their fires should not be visible to one another.