باب: قصاص سے متعلقہ روایات جو صرف مجتبیٰ نسائی میں ہیں، سنن کبریٰ میں نہیں نیز اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔‘‘ کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: What Is Mentioned In The Book Of Retaliation From Al-Mujtaba Which Is Not Contained In The Sunan: Interpreting The Saying Of Allah, The Mighty And Sublime: "And Whoever Kills A Believer Intentionally, His Recompense Is Hell To Abide Therein")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4863.
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا کہ میں حصرت ابن عباس ؓ سے ان دو آیات کے بارے میں پوچھوں: ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا﴾ ”جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے، اس کی سزا جہنم ہے۔“ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس آیت کو کسی دوسری آیت نے منسوخ نہیں کیا۔ دوسری آیت یہ تھی: ﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ﴾ ”اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں بناتے اور کسی قابل احترام جان کو ناحق قتل نہیں کرتے۔“ انھوں نے فرمایا: ”یہ مشرکین کے بارے میں اتری ہے۔
تشریح:
فائدہ: تفصیل کے لیے دیکھیے احادیث: ۳۹۸۹، ۴۰۰۴، ۴۰۱۳۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4877
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4878
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4867
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا کہ میں حصرت ابن عباس ؓ سے ان دو آیات کے بارے میں پوچھوں: ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا﴾ ”جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے، اس کی سزا جہنم ہے۔“ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس آیت کو کسی دوسری آیت نے منسوخ نہیں کیا۔ دوسری آیت یہ تھی: ﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ﴾ ”اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں بناتے اور کسی قابل احترام جان کو ناحق قتل نہیں کرتے۔“ انھوں نے فرمایا: ”یہ مشرکین کے بارے میں اتری ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: تفصیل کے لیے دیکھیے احادیث: ۳۹۸۹، ۴۰۰۴، ۴۰۱۳۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے مجھے حکم دیا کہ میں ابن عباس ؓ سے ان دو آیتوں «وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ» ”جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے۔“ (النساء: ۹۳) «وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ» ”جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الٰہ کو نہیں پکارتے اور اللہ کی حرام کردہ جانوں کو ناحق قتل نہیں کرتے۔“ (الفرقان: ۶۷) کے متعلق سوال کروں، میں نے اس کے بارے میں ابن عباس ؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: اسے کسی چیز نے منسوخ نہیں کیا، اور دوسری آیت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس رائے سے متعلق دیکھیں حاشیہ حدیث رقم (۴۰۰۴)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Sa'eed bin Jubair said: "Abdur-Rahman bin Abi Laila told me to ask Ibn 'Abbas about two Verses: 'And whoever kills a believe4r intentionally, his recompense is Hell' I asked him and he said: 'Nothing of this has been abrogated.'(And I asked him about the Verse): 'And those who invoke not any other ilah (god) along with Allah, nor kill such person as Allah has forbidden, except by right. He said: 'This was revealed concerning the people of shirk.