باب: قصاص سے متعلقہ روایات جو صرف مجتبیٰ نسائی میں ہیں، سنن کبریٰ میں نہیں نیز اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔‘‘ کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: What Is Mentioned In The Book Of Retaliation From Al-Mujtaba Which Is Not Contained In The Sunan: Interpreting The Saying Of Allah, The Mighty And Sublime: "And Whoever Kills A Believer Intentionally, His Recompense Is Hell To Abide Therein")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4865.
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے سورۂ فرقان والی آیت پڑھی: ﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ﴾ ”اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں بناتے اور کسی قابل احترام جان کو ناحق قتل نہیں کرتے۔“ انھوں نے فرمایا: یہ آیت مکی دور میں اتری۔ اس کو مدینہ منورہ میں اترنے والی ایک آیت نے منسوخ کر دیا: ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا۔۔۔۔۔۔۔﴾ ”جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ے، اس کی سزا جہنم ہے۔“
تشریح:
”سورہ فرقان والی آیت“ اصل استدلال اگلی آیت سے ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک کام شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی برائیاں نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ مگر حضرت ابن عباس اسے صرف مشرکین سے خاص سمجھتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4879
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4880
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4869
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے سورۂ فرقان والی آیت پڑھی: ﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ﴾ ”اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں بناتے اور کسی قابل احترام جان کو ناحق قتل نہیں کرتے۔“ انھوں نے فرمایا: یہ آیت مکی دور میں اتری۔ اس کو مدینہ منورہ میں اترنے والی ایک آیت نے منسوخ کر دیا: ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا۔۔۔۔۔۔۔﴾ ”جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ے، اس کی سزا جہنم ہے۔“
حدیث حاشیہ:
”سورہ فرقان والی آیت“ اصل استدلال اگلی آیت سے ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک کام شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی برائیاں نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ مگر حضرت ابن عباس اسے صرف مشرکین سے خاص سمجھتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ سے کہا: کیا مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے کے لیے توبہ ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں انہیں سورۃ الفرقان کی یہ آیت «وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ» پڑھ کر سنائی تو انہوں نے کہا: یہ آیت مکی ہے۔ اسے مدینے کی آیت «وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ» نے منسوخ کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Sa'eed bin Jubair said: "I said to Ibn Abbas . 'Can a person who killed a believer intentionally repent?' He said: 'No.' Irecited the Verse from Al-Furqan to him: And those who invoke not any other ilah (god) along with Allah, nor kill such person a Allah has forbidden, except but right. He said: 'This Verse was revealed in Makkah and was abrogated by a verse that was revealed in Al-Madinah: And whoever kills a believer intentionally, his recompense is Hell.