Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: A Man Being Good in His Islam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4998.
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جب کوئی شخص مسلمان ہو جائے اور اچھا مسلمان بن جائے تو اللہ تعالیٰ اسکی ہر وہ نیکی (اس کے نامہ اعمال میں) لکھ دیتا ہے جو اس نے اپنے دور جاہلیت میں کی ہوتی ہے۔ اور اس کا ہر وہ گناہ معاف کردیا جاتا ہے جو اس نے اس سے پہلے کیا ہو تا ہے۔ پھر اس کے بعد (اس کو اس کے اعمال کا) بدلہ ملےگا۔ نیکی کا ثواب دس گناہ سے سات سو گنا تک ہو گا اور برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہی ہوگا۔ ہاں! اللہ عزوجل چاہے تو اسے بھی معاف فرما دے۔“
تشریح:
(1) ”اچھا مسلمان بن جائے“ یعنی اس کا دل بھی اس کی زبان سے موافق ہے جائے اور اس کا اسلام زبان سے گزر کر دل اورتمام جسمانی اعضاء تک پہنچ جائے۔ وہ کھرا، سچا اور سچا مسلمان بن جائے، ظاہرا بھی اور باطنا بھی، یعنی نہ و ہ منافق رہے اور نہ فاسق۔ (6) ”لکھ دیتا ہے“ گویا کافر کی نیکیاں تب ضائع ہوتی ہیں جب وہ کفر پر مرتا ہے۔ اگر اسے ہدایت مل جائے تواللہ تعالی اسے کی گزشتہ نیکیاں باقی رکھتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کا احسان اور فضل وکرم ہے ورنہ نیکی کی قبولیت کے لیے شرط ہے کہ وہ ایمان کی حالت میں ہو، مگر تفضل اور احسان کے لیے کوئی شرط نہیں ہوتی۔ جس طرح نیکی کا بدلہ سات سو گنا تک ملنا بھی اللہ تعالی کا فضل واحسان ہی ہے ورنہ عقل تو اس باب کا تقاضا نہیں کرتی۔ (3) ”جزاو سزا“ یعنی اسلام لانے سے پہلے کے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں لیکن اسلام لانے کے بعد والے گناہوں کا بدلہ ملےگا، الا یہ کہ اللہ تعالی معاف فرما دے تو اس کا فضل ہوگا۔ (لا یسئل عما یفعل وھم یسئلون ) (الانبیاء21:23) اور اللہ تعالی کے فضل ہی کی امید رکھنی چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 437 :
أخرجه النسائي ( 2 / 267 - 268 ) من طريق صفوان بن صالح قال : حدثنا الوليد قال
: حدثنا مالك عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار عن أبي سعيد الخدري قال : قال
رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره .
قلت : و هذا سند صحيح ، و قد علقه البخاري في " صحيحه " فقال : قال مالك :
أخبرني زيد بن أسلم به دون كتب الحسنات . و قد وصله الحسن بن سفيان و البزار
و الإسماعيلي و الدارقطني في " غرائب مالك " و البيهقي في " الشعب " من طرق
أخرى عن مالك به .
قال حافظ في " الفتح " ( 1 / 82 ) :
" و قد ثبت في جميع الروايات ما سقط من رواية البخاري و هو كتابة الحسنات
المتقدمة قبل الإسلام . و قوله " كتب الله " أي أمر أن يكتب ، و للدارقطني من
طريق زيد بن شعيب عن مالك بلفظ " يقول الله لملائكته اكتبوا " ، فقيل : إن
المصنف أسقط ما رواه غيره عمدا ، لأنه مشكل على القواعد .
و قال المازري :
الكافر ليس كذلك ، فلا يثاب على العمل الصالح الصادر منه في شركه ، لأن من شرط
المتقرب أن يكون عارفا لمن يتقرب إليه ، و الكافر ليس كذلك .
و تابعه القاضي عياض على تقرير هذا الإشكال . و استضعف ذلك النووي فقال :
" و الصواب الذي عليه المحققون ، بل نقل بعضهم فيه الإجماع أن الكافر إذا فعل
أفعالا جميلة كالصدقة وصلة الرحم ، ثم أسلم ، ثم مات على الإسلام أن ثواب ذلك
يكتب له . و أما دعوى أنه مخالف للقواعد ، فغير مسلم ، لأنه قد يعتد ببعض أفعال
الكفار في الدنيا ككفارة الظهار ، فإنه لا يلزمه إعادتها إذا أسلم و تجزئه "
انتهى .
ثم قال الحافظ :
و الحق أنه لا يلزم من كتابة الثواب للمسلم في حال إسلامه تفضلا من الله
و إحسانا أن يكون ذلك لكون عمله الصادر منه في الكفر مقبولا . و الحديث إنما
تضمن كتابة الثواب ، و لم يتعرض للقبول . و يحتمل أن يكون القبول يصير معلقا
على إسلامه ، فيقبل و يثاب إن أسلم ، و إلا فلا . و هذا قوي . و قد جزم بما
جزم به النووي : إبراهيم الحربي و ابن بطال و غيرهما من القدماء ، و القرطبي
و ابن المنير من المتأخرين .
قال ابن المنير :
المخالف للقواعد ، دعوى أن يكتب له ذلك في حال كفره ، و أما أن الله يضيف إلى
حسناته في الإسلام ثواب ما كان صدر منه مما كان يظنه خيرا ، فلا مانع منه كما
لو تفضل عليه ابتداء من غير عمل ، و كما تفضل على العاجز بثواب ما كان يعمل
و هو قادر ، فإذا جاز أن يكتب له ثواب ما لم يعمل البتة جاز أن يكتب ثواب ما
عمله غير موفى الشروط . و استدل غيره بأن من آمن من أهل الكتاب يؤتى أجره مرتين
كما دل عليه القرآن و الحديث الصحيح ، و هو لو مات على إيمانه الأول لم ينفعه
شيء من عمله الصالح ، بل يكون هباء منثورا ، فدل على أن ثواب عمله الأول يكتب
له مضافا إلى عمله الثاني ، و بقوله صلى الله عليه وسلم لما سألته عائشة عن
ابن جدعان و ما كان يصنعه من الخير :
هل ينفعه ؟ فقال : إنه لم يقل يوما ، رب اغفر لي خطيئتي يوم الدين ، فدل على
أنه لو قالها بعد أن أسلم نفعه ما عمله في الكفر " .
قلت : و هذا هو الصواب الذي لا يجوز القول بخلافه لتضافر الأحاديث على ذلك ،
و لهذا قال السندي في حاشيته على النسائي :
" و هذا الحديث يدل على أن حسنات الكافر موقوفة ، إن أسلم تقبل ، و إلا ترد .
و على هذا فنحو قوله تعالى : ( و الذين كفروا أعمالهم كسراب ) محمول على من مات
على الكفر ، و الظاهر أنه لا دليل على خلافه ، و فضل الله أوسع من هذا و أكثر
فلا استبعاد فيه ، و حديث " الإيمان يجب ما قبله " من الخطايا في السيئات لا في
الحسنات " .
قلت : و مثل الآية التي ذكرها السندي رحمه الله سائر الآيات الواردة في إحباط
العمل بالشرك كقوله تعالى : ( و لقد أوحي إليك و إلى الذين من قبلك لئن أشركت
ليحبطن عملك ، و لتكونن من الخاسرين ) ، فإنها كلها محمولة على من مات مشركا ،
و من الدليل على ذلك قوله عز و جل : ( و من يرتدد منكم عن دينه فيمت و هو كافر
فأولئك حبطت أعمالهم في الدنيا و الآخرة و أولئك أصحاب النار هم فيها خالدون )
و يترتب على ذلك مسألة فقهية و هي أن المسلم إذا حج ، ثم ارتد ، ثم عاد إلى
الإسلام ، لم يحبط ، حجه و لم يجب عليه إعادته ، و هو مذهب الإمام الشافعي
و أحد قولي الليث بن سعد ، و اختاره ابن حزم و انتصر له بكلام جيد متين ، أرى
أنه لابد من ذكره ، قال رحمه الله تعالى ( 7 / 277 ) :
" مسألة - من حج و اعتمر ، ثم ارتد ، ثم هداه الله تعالى و استنقذه من النار
فأسلم فليس عليه أن يعيد الحج و لا العمرة ، و هو قول الشافعي و أحد قولي الليث
و قال أبو حنيفة و مالك و أبو سليمان : يعيد الحج و العمرة ، و احتجوا بقول
الله تعالى : ( لئن أشركت ليحبطن عملك و لتكونن من الخاسرين ) ، ما نعلم لهم
حجة غيرها ، و لا حجة لهم فيها ، لأن الله تعالى لم يقل فيها : لئن أشركت
ليحبطن عملك الذي عملت قبل أن تشرك ، و هذه زيادة على الله لا تجوز ، و إنما
أخبر تعالى أنه يحبط عمله بعد الشرك إذا مات أيضا على شركه ، لا إذا أسلم ،
و هذا حق بلا شك . و لو حج مشرك أو اعتمر أو صلى أو صام أو زكى لم يجزه شيء من
ذلك عن الواجب ، و أيضا فإن قوله تعالى فيها : ( و لتكونن من الخاسرين ) بيان
أن المرتد إذا رجع إلى الإسلام لم يحبط ما عمل قبل إسلامه أصلا بل هو مكتوب له
و مجازى عليه بالجنة ، لأنه لا خلاف بين أحد من الأمة في أن المرتد إذا رجع إلى
الإسلام ليس من الخاسرين بل من المربحين المفلحين الفائزين ، فصح أن الذي يحبط
عمله هو الميت على كفره ، مرتدا أو غير مرتد ، و هذا هو من الخاسرين بلا شك ،
لا من أسلم بعد كفره أو راجع الإسلام بعد ردته ، و قال تعالى : ( و من يرتدد
منكم عن دينه فيمت و هو كافر فأولئك حبطت أعمالهم ) فصح نص قولنا : من أنه لا
يحبط عمله إن ارتد إلا بأن يموت و هو كافر ، و وجدنا الله تعالى يقول : ( إني
لا أضيع عمل عامل منكم من ذكر أو أنثى ) ، و قال تعالى : ( فمن يعمل مثقال ذرة
خيرا يره ) ، و هذا عموم لا يجوز تخصيصه ، فصح أن حجه و عمرته إذا راجع الإسلام
سيراهما ، و لا يضيعان له .
و روينا من طرق كالشمس عن الزهري و عن هشام بن عروة المعنى كلاهما عن عروة
بن الزبير أن حكيم بن حزام أخبره أنه قال لرسول الله عليه السلام : أي رسول
الله أرأيت أمورا كنت أتحنث بها في الجاهلية من صدقة أو عتاقة أو صلة رحم ،
أفيها أجر ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
" أسلمت على ما أسلفت من خير
صحيح الجامع ( 336 ) //
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5012
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5013
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5001
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جب کوئی شخص مسلمان ہو جائے اور اچھا مسلمان بن جائے تو اللہ تعالیٰ اسکی ہر وہ نیکی (اس کے نامہ اعمال میں) لکھ دیتا ہے جو اس نے اپنے دور جاہلیت میں کی ہوتی ہے۔ اور اس کا ہر وہ گناہ معاف کردیا جاتا ہے جو اس نے اس سے پہلے کیا ہو تا ہے۔ پھر اس کے بعد (اس کو اس کے اعمال کا) بدلہ ملےگا۔ نیکی کا ثواب دس گناہ سے سات سو گنا تک ہو گا اور برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہی ہوگا۔ ہاں! اللہ عزوجل چاہے تو اسے بھی معاف فرما دے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”اچھا مسلمان بن جائے“ یعنی اس کا دل بھی اس کی زبان سے موافق ہے جائے اور اس کا اسلام زبان سے گزر کر دل اورتمام جسمانی اعضاء تک پہنچ جائے۔ وہ کھرا، سچا اور سچا مسلمان بن جائے، ظاہرا بھی اور باطنا بھی، یعنی نہ و ہ منافق رہے اور نہ فاسق۔ (6) ”لکھ دیتا ہے“ گویا کافر کی نیکیاں تب ضائع ہوتی ہیں جب وہ کفر پر مرتا ہے۔ اگر اسے ہدایت مل جائے تواللہ تعالی اسے کی گزشتہ نیکیاں باقی رکھتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کا احسان اور فضل وکرم ہے ورنہ نیکی کی قبولیت کے لیے شرط ہے کہ وہ ایمان کی حالت میں ہو، مگر تفضل اور احسان کے لیے کوئی شرط نہیں ہوتی۔ جس طرح نیکی کا بدلہ سات سو گنا تک ملنا بھی اللہ تعالی کا فضل واحسان ہی ہے ورنہ عقل تو اس باب کا تقاضا نہیں کرتی۔ (3) ”جزاو سزا“ یعنی اسلام لانے سے پہلے کے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں لیکن اسلام لانے کے بعد والے گناہوں کا بدلہ ملےگا، الا یہ کہ اللہ تعالی معاف فرما دے تو اس کا فضل ہوگا۔ (لا یسئل عما یفعل وھم یسئلون ) (الانبیاء21:23) اور اللہ تعالی کے فضل ہی کی امید رکھنی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی بندہ اسلام قبول کر لے اور اچھی طرح مسلمان ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نیکی لکھ لیتا ہے جو اس نے کی ہو اور اس کی ہر برائی مٹا دی جاتی ہے جو اس نے کی ہو، پھر اس کے بعد یوں ہوتا ہے کہ بھلائی کا بدلہ اس کے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہوتا ہے، اور برائی کا بدلہ اتنا ہی ہوتا ہے۔“ (جتنی اس نے کی) سوائے اس کے کہ اللہ معاف ہی کر دے (تو کچھ بھی نہیں ہوتا)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Sa'eed Al-Khudri said: "The Messenger of Allah(صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'If a person accepts Islam, such that his Islam is good, Allah will decree reward for every good deed that he did before, and every bad deed that he did before will be erased. Then after that will come the reckoning; each good deed will be rewarded ten times up to seven hundred times. And each bad deed will be recorded as it is, unless Allah, the Mighty and Sublime, forgives it.