Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Mentioning the Branches of Faith)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5004.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک اہم شاخ ہے۔“
تشریح:
(1) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اعمال بھی مسمی ”ایمان“ میں داخل ہیں۔ یہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے۔ اور یہی حق ہے جبکہ بعض لوگ اس کے قائل نہیں۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ حیا ایمان کی ایک شاخ ہے کیونکہ حیا سے انسان کے اندر نیکی کا جذبہ اور اعمال صالحہ کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، ایمان کے منافی امور سے انسان بچتا اور اعلیٰ اخلاق وکردار کاحامل بنتا ہے۔ (3) ایمان کو درخت سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ جڑ، تنے، ٹہنیوں، شاخوں، پتوں، پھلوں اور پھولوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اسی طرح ایمان بھی بہت سے عقائد واعمال اور اخلاق کے مجموعے کانام ہے۔ عقیدے کی حیثیت جڑ کی ہے۔ ارکان کی حیثیت تنے اور ٹہنیوں کی ہے۔ دیگر اعمال شاخوں اور پتوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور اخلاق کی حیثیت پھولوں اور پھلوں کی ہے۔ عقیدے کی خرابی کا اثر اعمال واخلاق میں ظاہر ہوتا ہے جس طرح بیج اور جڑ کی خرابی پودے کی ہر چیز پر اثر انداز ہوتی ہے، اور اعمال کی کمی بیشی درخت کو ناقص بنا دیتی ہے اور اخلاق کی خرابی درخت کی زینت پر اثر ڈالتی ہے۔ (2) ”ستر سے زائد“ گویا ایمان بہت سے اعمال کے مجموعے کا نام ہے۔ ستر کا لفظ کثرت کے لیے بھی بولا جاتاہے۔ زائد کہہ کر مزید کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ ممکن معین عدد مراد ہو۔ زائد ترجمہ ہے بضع کا جو تین سے نو تک کے عدد پر بولا جاتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5018
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5019
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5007
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک اہم شاخ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اعمال بھی مسمی ”ایمان“ میں داخل ہیں۔ یہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے۔ اور یہی حق ہے جبکہ بعض لوگ اس کے قائل نہیں۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ حیا ایمان کی ایک شاخ ہے کیونکہ حیا سے انسان کے اندر نیکی کا جذبہ اور اعمال صالحہ کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، ایمان کے منافی امور سے انسان بچتا اور اعلیٰ اخلاق وکردار کاحامل بنتا ہے۔ (3) ایمان کو درخت سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ جڑ، تنے، ٹہنیوں، شاخوں، پتوں، پھلوں اور پھولوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اسی طرح ایمان بھی بہت سے عقائد واعمال اور اخلاق کے مجموعے کانام ہے۔ عقیدے کی حیثیت جڑ کی ہے۔ ارکان کی حیثیت تنے اور ٹہنیوں کی ہے۔ دیگر اعمال شاخوں اور پتوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور اخلاق کی حیثیت پھولوں اور پھلوں کی ہے۔ عقیدے کی خرابی کا اثر اعمال واخلاق میں ظاہر ہوتا ہے جس طرح بیج اور جڑ کی خرابی پودے کی ہر چیز پر اثر انداز ہوتی ہے، اور اعمال کی کمی بیشی درخت کو ناقص بنا دیتی ہے اور اخلاق کی خرابی درخت کی زینت پر اثر ڈالتی ہے۔ (2) ”ستر سے زائد“ گویا ایمان بہت سے اعمال کے مجموعے کا نام ہے۔ ستر کا لفظ کثرت کے لیے بھی بولا جاتاہے۔ زائد کہہ کر مزید کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ ممکن معین عدد مراد ہو۔ زائد ترجمہ ہے بضع کا جو تین سے نو تک کے عدد پر بولا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں، حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ستر کا عدد عربوں میں غیر متعین کثیر تعداد کے لیے بولا جاتا تھا، اس سے خاص متعین ” ستر کا عدد “ مراد نہیں ہے ، اور «بضع» کا لفظ ”تین سے نو“ تک کے لیے بولا جاتا ہے، اور ایمان کی ان شاخوں میں خاص طور پر حیاء کا تذکرہ اس کی اہمیت جتانے کے لیے کیا ہے کہ حیاء ان ستر اعمال پر ابھارنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اس حیاء سے بھی مراد وہی حیاء ہے جو نیک کاموں پر ابھارے، نہ کہ وہ حیاء جو حق بات کہنے اور اس پر عمل کرنے سے روکے، وہ شرعی حیاء ہے ہی نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Faith has seventy odd branches and modesty (Al-Haya') is a branch of faith.