باب: اہل ایمان (درجات کے لحاظ سے ) ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں
)
Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Variation in People's Level of Faith)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5007.
نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عمار (رضی اللہ عنہ) کناروں تک ایمان سے لبالب بھرا ہو اہے۔“
تشریح:
(1) یہ اٹل حقیقت ہے کہ ایمان میں سب مومن ایک جیسے نہیں ہوتے، اس لیے ان کا درجہ اور مرتبہ بھی ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایمان کم وبیش ہوسکتا ہے، نیز جو لوگ ایمانی کایمان جبریل ”میرا ایمان حضرت جبر یل علیہ السلام کے ایمان جیسا ہے“ کے قائل ہیں، وہ درست نہیں کہتے۔ ایمان میں کمی بیشی قطعی امر ہے۔ (ایمان کی تفسیر کے لیے دیکھیے، کتا ب الایمان) (2) ”کنا روں تک“ عربی میں لفظ مشاش استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہڈیوں کے آخری کنارے ہیں، مثلا: کہنیا ں، گھٹنے، ٹخنے، کندھے وغیر ہ۔ اس میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی عظیم فضلیت ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کےایمان کی تعریف فرما رہے ہیں۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ
الحکم التفصیلی:
قلت : و إسناده ضعيف مسلسل بالضعفاء ، و هم من دون سعيد بن جبير . قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 466 :
أخرجه النسائي ( 2 / 269 - 270 ) و الحاكم ( 3 / 392 - 393 ) من طرق عن عبد
الرحمن بن مهدي قال : حدثنا سفيان عن الأعمش عن أبي عمار عن عمرو بن شرحبيل
عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال : قال رسول الله صلى الله عليه
وسلم فذكره .
قلت : و هذا إسناد صحيح ، رجاله ثقات رجال الشيخين غير أبي عمار و اسمه عريب بن
حميد الهمداني و هو ثقة ، و جهالة الصحابي لا تضر على أنه قد سماه محمد بن أبي
يعقوب حدثنا عبد الرحمن بن مهدي به فقال : " عبد الله " يعني ابن مسعود . أخرجه
الحاكم و قال : " صحيح على شرط الشيخين إن كان محمد بن أبي يعقوب حفظ عن عبد
الرحمن بن مهدي ! و وافقه الذهبي !
قلت : ابن أبي يعقوب هذا ثقة من شيوخ البخاري ، و اسمه أبيه إسحاق فإذا كان قد
حفظه ، فلا يزيد على كونه صحيحا لأن أبا عمار ليس من رجال الشيخين كما ذكر آنفا
. و له طريق أخرى ، يرويه عثام بن علي عن الأعمش عن أبي إسحاق عن هانىء بن
هانىء قال : " دخل عمار على علي ، فقال : مرحبا بالطيب المطيب ، سمعت رسول الله
صلى الله عليه وسلم يقول ... " فذكره . أخرجه ابن ماجه ( 147 ) و أبو نعيم في
" الحلية " ( 1 / 139 ) .
قلت : و رجاله ثقات رجال البخاري غير هانىء بن هانىء و هو مستور كما في
" التقريب " . و له شاهد يرويه محمد بن حميد حدثنا سلمة بن الفضل عن ابن إسحاق
عن حكيم بن جبير عن سعيد بن جبير عن ابن عباس مرفوعا بلفظ : " من قرنه إلى قدمه
. يعني مشاشه " . أخرجه أبو نعيم
ابن ماجة ( 147 ) //
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5021
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5022
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5010
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عمار (رضی اللہ عنہ) کناروں تک ایمان سے لبالب بھرا ہو اہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ اٹل حقیقت ہے کہ ایمان میں سب مومن ایک جیسے نہیں ہوتے، اس لیے ان کا درجہ اور مرتبہ بھی ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایمان کم وبیش ہوسکتا ہے، نیز جو لوگ ایمانی کایمان جبریل ”میرا ایمان حضرت جبر یل علیہ السلام کے ایمان جیسا ہے“ کے قائل ہیں، وہ درست نہیں کہتے۔ ایمان میں کمی بیشی قطعی امر ہے۔ (ایمان کی تفسیر کے لیے دیکھیے، کتا ب الایمان) (2) ”کنا روں تک“ عربی میں لفظ مشاش استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہڈیوں کے آخری کنارے ہیں، مثلا: کہنیا ں، گھٹنے، ٹخنے، کندھے وغیر ہ۔ اس میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی عظیم فضلیت ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کےایمان کی تعریف فرما رہے ہیں۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عمار کا ایمان ہڈیوں کے پوروں تک بھر گیا ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عمار رضی اللہ عنہ کا ایمان بعض لوگوں سے زیادہ تھا، اس سے ایک دوسرے کا ایمان میں کم و بیش ہونا ثابت ہوا، سلف کا یہی عقیدہ ہے کہ ایمان میں کمی زیادتی خود ہر آدمی کے حساب سے بھی ہوتی ہے، نیز ایک دوسرے کے مقابلے میں بھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin Shurahbil,: That one of the Companions of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Ammar's heart overflows with Faith.