Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Increasing Faith)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5012.
حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی شخص حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: اے امیر المومنین! تمھاری کتا ب (قرآن مجید) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑ ھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی تو ہم اس (کے نزول ) کے دن کے تہوار بنا لیتے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کون سی آیت؟ اس نے کہا (الیوم اکملت لکم دینکم .....) ”آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور اپنا احسان تم پر پورا کر دیا اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند فرمایا۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس جگہ کو بھی جانتا ہوں جس میں یہ آیت اتری ہے اور اس دن کو بھی۔ یہ آیت رسول اللہ ﷺ پر بہ مقام عرفات جمعۃ المبارک کے دن اتری۔
تشریح:
(1) ”تہوار بنا لتیے“ کیونکہ کسی امت کے لیے تکمیل دین ایک بہت بڑا اعزاز وانعام ہے جو امت محمد یہ کو نصیب ہوا۔ (2) ”جانتا ہوں“ یعنی ہمارے ہاں وہ دن ہی تہوار نہیں بلکہ مقام نزول بھی قیامت تک کے لیے عید گاہ بن چکا ہے۔ یقینا ہر سال اس مقام پر اس دن اتنا بڑا اجتماع کسی اور قوم کے تصور میں بھی نہیں آسکتا۔ والحمد للہ على ذلك. (3) ”مکمل فرمایا“ گویا پہلے ناقص تھا۔ اور دین کی کمی بیشی ایمان کی کمی بیشی کو مستلزم ہے کیونکہ دین کے ہر حصے پر ایمان لانا ضروری ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5026
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5027
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5015
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی شخص حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: اے امیر المومنین! تمھاری کتا ب (قرآن مجید) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑ ھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی تو ہم اس (کے نزول ) کے دن کے تہوار بنا لیتے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کون سی آیت؟ اس نے کہا (الیوم اکملت لکم دینکم .....) ”آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور اپنا احسان تم پر پورا کر دیا اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند فرمایا۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس جگہ کو بھی جانتا ہوں جس میں یہ آیت اتری ہے اور اس دن کو بھی۔ یہ آیت رسول اللہ ﷺ پر بہ مقام عرفات جمعۃ المبارک کے دن اتری۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”تہوار بنا لتیے“ کیونکہ کسی امت کے لیے تکمیل دین ایک بہت بڑا اعزاز وانعام ہے جو امت محمد یہ کو نصیب ہوا۔ (2) ”جانتا ہوں“ یعنی ہمارے ہاں وہ دن ہی تہوار نہیں بلکہ مقام نزول بھی قیامت تک کے لیے عید گاہ بن چکا ہے۔ یقینا ہر سال اس مقام پر اس دن اتنا بڑا اجتماع کسی اور قوم کے تصور میں بھی نہیں آسکتا۔ والحمد للہ على ذلك. (3) ”مکمل فرمایا“ گویا پہلے ناقص تھا۔ اور دین کی کمی بیشی ایمان کی کمی بیشی کو مستلزم ہے کیونکہ دین کے ہر حصے پر ایمان لانا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ یہود کا ایک یہودی عمر بن خطاب ؓ کے پاس آ کر بولا: امیر المؤمنین! آپ کی کتاب (قرآن) میں ایک آیت ہے، اگر وہ ہم یہودیوں پر اترتی تو (جس روز اترتی) ہم اسے عید کا دن بنا لیتے، کہا: کون سی آیت؟ یہودی بولا: «اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا» ”آج کے دن میں نے تمہارا دین پورا کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔“ (المائدہ: ۳)۔ عمر ؓ نے کہا: مجھے وہ مقام جہاں یہ اتری وہ مقام معلوم ہے، وہ دن معلوم ہے جب یہ نازل ہوئی، یہ جمعہ کے دن عرفات میں رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
یہ آیت بھی ایمان کے گھٹنے اور بڑھنے پر دلالت کرتی ہے، اس طرح کہ دین اسلام دیگر ادیان کے مقابلے میں کامل ہے، اور کامل کا ضد ناقص ہوتا ہے، تو اہل اسلام کا ایمان اگلی امتوں سے زیادہ ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Tariq bin Shihab said: "A Jewish man came to 'Umar bin Al-Khattab and said: 'O Commander of the Believers! There is a Verse in your Book which you recite; if it had been revealed to us Jews we would have taken that day as a festival.' He said: 'Which Verse is that?' He said: 'This day, I have perfected your religion for you, completed My favor upon you, and have chosen for you Islam as your religion.' 'Umar said: 'I know the place where it was revealed and the day on which it was revealed. It was revealed to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) at 'Arafat, on a Friday.