Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: The Sign of Faith)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5017.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! تم میں سے کوئی شخص (اس وقت تک) مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے (ہرمسلمان) بھائی کے لیے اسی طرح خیروبھلائی پسند نہ کرے جس طرح اپنے لیے کرتا ہے۔“
تشریح:
خیر وبھلائی سے دنیا وعقبیٰ کی ہر خیر وبھلائی مراد ہے، طاعات سے لے کر جنت تک۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 113 :
أخرجه البخاري ( 1 / 11 ) ، و مسلم ( 1 / 49 ) ، و أبو عوانة في " صحيحه "
( 1 / 33 ) ، و النسائي ( 2 / 271 ، 274 ) ، و الترمذي ( 2 / 84 ) ، و الدارمي
( 2 / 307 ) ، و ابن ماجه ( رقم 66 ) ، و الطيالسي ( رقم 2004 ) ، و أحمد
( 3 / 177 ، 207 ، 275 ، 278 ) من حديث أنس بن مالك مرفوعا .
و قال الترمذي : " حديث صحيح " .
و الزيادة لأبي عوانة و النسائي و أحمد في رواية لهم و إسنادها صحيح .
و للحديث شاهد من حديث علي مرفوعا بلفظ :
" للمسلم على المسلم ست .... و يحب له ما يحب لنفسه ، و ينصح له بالغيب " .
أخرجه الدارمي ( 2 / 275 - 276 ) ، و ابن ماجه ( 1433 ) ، و أحمد ( 1 / 89 )
بسند ضعيف .
و اعلم أن هذه الزيادة " من الخير " زيادة هامة تحدد المعنى المراد من الحديث
بدقة ، إذ أن كلمة ( الخير ) كلمة جامعة تعم الطاعات و المباحات الدنيوية
و الأخروية و تخرج المنهيات ، لأن اسم الخير لا يتناولها ، كما هو واضح . فمن
كمال خلق المسلم أن يحب لأخيه المسلم من الخير مثلما يحب لنفسه . و كذلك أن
يبغض لأخيه ما يبغض لنفسه من الشر ، و هذا و إن لم يذكره في الحديث ، فهو من
مضمونه ، لأن حب الشيء مستلزم لبغض نقيضه ، فترك التنصيص عليه اكتفاء كما قال
الكرماني و نقله الحافظ في " فتح الباري " ( 1 / 54 ) و أقره .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5031
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5032
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5020
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! تم میں سے کوئی شخص (اس وقت تک) مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے (ہرمسلمان) بھائی کے لیے اسی طرح خیروبھلائی پسند نہ کرے جس طرح اپنے لیے کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
خیر وبھلائی سے دنیا وعقبیٰ کی ہر خیر وبھلائی مراد ہے، طاعات سے لے کر جنت تک۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas that : The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "By the One in Whose hand is the soul of Muhammad, none of you has believed until he loves for his brother what he loves for himself of goodness.