Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Zakah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5028.
حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے فرمایا: ایک آدمی نجد کے علاقے سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی آواز کی بھنبھناہٹ تو سنائی دیتی تھی مگر اس کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی حتی ٰ کہ وہ قریب آگیا تو پتہ چلا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: ”ہر دن رات میں پانچ نمازیں۔“ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ کوئی اور نماز بھی مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں مگر یہ کہ تو خوشی سے پڑھے۔“ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: اور ماہ رمضان المبارک کے روزے۔“ اس نے کہا:کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی روزے فرض ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں مگر یہ کہ خوشی سے کرے۔“ رسول اللہ ﷺ نے اس کے سامنے زکاۃ کا بھی ذکر فرمایا۔ اس نے کہا: اس کے علاوہ بھی کوئی مالی چیز(صدقہ) مجھ پرفرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں الا یہ کہ تو نفل صدقہ کرے۔“ وہ آدمی واپس جانے لگا تو کہہ رہا تھا: میں نہ اس سے زیادہ کروں گانہ کم۔رسول اللہ ﷺ سے فرمایا: ”اگر یہ آدمی اپنی بات پر لگا رہا تو کامیاب ہوگیا۔“
تشریح:
(1) ”سنائی دیتی تھی“ گویا وہ اپنے سوالات دور سے ہی بڑا بڑا ہوا آرہا تھا۔ (2) ”کوئی اور نماز، مثلا تہجد ،اشراق وضحیٰ وغیرہ کی نمازیں ۔یہاں فرضوں سے آگے پیچھے پڑھی جانے والی سنتیں مراد نہیں (جنھیں رواتب کہتے ہیں) کیونکہ یہ تب ہوتا اگر آپ نمازوں کی رکعات کی تعداد بتارہے ہوتے۔ (3) ”کوئی مالی صدقہ“بعض لوگوں نے یہاں سے صدقہ الفطر اور قربانی کےوجوب کی نفی پر استدلال کیا ہے۔ لیکن صحیح باب یہ ہے کہ صدقۃ الفطر نہیں بلکہ صدقۃ النفس ہے۔ اسی طرح قربانی بھی مالی صدقہ نہیں ورنہ اس سے خود کھانا اور امر اء کو کھلانا جائز نہ ہوتا بلکہ یہ الگ عبادت ہے،جیسے حج اگرچہ اس میں مال صرف ہوتا ہے۔ (4) ”زیادہ کروں گا نہ کم“ یعنی نفل نمازیں، روزے اور صدقات کی ادائیگی کا عہد نہیں کرتا اور فرائض میں کمی نہیں کروں گا۔ ان الفاظ سے نوافل کی ادائیگی نہیں ہوتی جیساکہ ظاہر بین شخص سمجھتا ہے۔ تفصیلی بحث پیچھے گز چکی ہے ۔دیکھیے (حدیث: 459) (5) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود شعب ایمان بیان کرنا ہے جن میں زکاو ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5042
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5043
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5031
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے فرمایا: ایک آدمی نجد کے علاقے سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی آواز کی بھنبھناہٹ تو سنائی دیتی تھی مگر اس کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی حتی ٰ کہ وہ قریب آگیا تو پتہ چلا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: ”ہر دن رات میں پانچ نمازیں۔“ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ کوئی اور نماز بھی مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں مگر یہ کہ تو خوشی سے پڑھے۔“ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: اور ماہ رمضان المبارک کے روزے۔“ اس نے کہا:کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی روزے فرض ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں مگر یہ کہ خوشی سے کرے۔“ رسول اللہ ﷺ نے اس کے سامنے زکاۃ کا بھی ذکر فرمایا۔ اس نے کہا: اس کے علاوہ بھی کوئی مالی چیز(صدقہ) مجھ پرفرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں الا یہ کہ تو نفل صدقہ کرے۔“ وہ آدمی واپس جانے لگا تو کہہ رہا تھا: میں نہ اس سے زیادہ کروں گانہ کم۔رسول اللہ ﷺ سے فرمایا: ”اگر یہ آدمی اپنی بات پر لگا رہا تو کامیاب ہوگیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”سنائی دیتی تھی“ گویا وہ اپنے سوالات دور سے ہی بڑا بڑا ہوا آرہا تھا۔ (2) ”کوئی اور نماز، مثلا تہجد ،اشراق وضحیٰ وغیرہ کی نمازیں ۔یہاں فرضوں سے آگے پیچھے پڑھی جانے والی سنتیں مراد نہیں (جنھیں رواتب کہتے ہیں) کیونکہ یہ تب ہوتا اگر آپ نمازوں کی رکعات کی تعداد بتارہے ہوتے۔ (3) ”کوئی مالی صدقہ“بعض لوگوں نے یہاں سے صدقہ الفطر اور قربانی کےوجوب کی نفی پر استدلال کیا ہے۔ لیکن صحیح باب یہ ہے کہ صدقۃ الفطر نہیں بلکہ صدقۃ النفس ہے۔ اسی طرح قربانی بھی مالی صدقہ نہیں ورنہ اس سے خود کھانا اور امر اء کو کھلانا جائز نہ ہوتا بلکہ یہ الگ عبادت ہے،جیسے حج اگرچہ اس میں مال صرف ہوتا ہے۔ (4) ”زیادہ کروں گا نہ کم“ یعنی نفل نمازیں، روزے اور صدقات کی ادائیگی کا عہد نہیں کرتا اور فرائض میں کمی نہیں کروں گا۔ ان الفاظ سے نوافل کی ادائیگی نہیں ہوتی جیساکہ ظاہر بین شخص سمجھتا ہے۔ تفصیلی بحث پیچھے گز چکی ہے ۔دیکھیے (حدیث: 459) (5) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود شعب ایمان بیان کرنا ہے جن میں زکاو ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے روایت ہے کہ اہل نجد میں سے ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی گنگناہٹ سنائی دیتی تھی لیکن سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ جب وہ قریب ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”دن رات میں پانچ وقت کی نماز“، اس نے کہا: اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہیں میرے اوپر؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں ، سوائے اس کے کہ تم نفل (سنت) پڑھنا چاہو“، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”رمضان کے مہینے کے روزے“، اس نے کہا: میرے اوپر اس کے علاوہ کچھ اور بھی روزے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں ، سوائے اس کے کہ تم نفل ادا کرو“، اور پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے زکاۃ کا ذکر کیا ۔ اس نے کہا: میرے اوپر اس کے علاوہ بھی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں سوائے اس کے کہ تم نفل دینا چاہو“، پھر وہ منہ موڑ کر چلا اور کہہ رہا تھا: نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ اس سے کم کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس نے سچ کہا ہے تو وہ کامیاب ہوا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : زکاۃ بھی ایمان کے ارکان اور پہچان میں سے ہے اس لیے مؤلف نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Suhail narrated from his father,: That he heard Talhah bin 'Ubaidullah say: "A man from Najd with unkempt hair came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم); he was speaking loudly but his speech could not be understood until he came close. He was asking about Islam. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Five prayers every day and night.' He said: 'Do I have to do any more than that? He said: 'No, not unless you do it voluntarily.' The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Fasting the month of Ramadan.' He said: 'Do I have to do any more than that?' He said: 'No, not unless you do it voluntarily.' Then the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) told him about Zakah. He said: 'Do I have to do any more than that?' He said: 'No, not unless you do it voluntarily.' The man left saying, 'I will not do any more than that or any less.' The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'He will succeed, if he is telling the truth.