Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Jihad)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5029.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں (جہاد کے لیے) نکلتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ضمانت دے رکھی ہے کہ اگروہ صرف مجھ پر ایمان رکھتے ہوئے او ر خالص میرے راستے میں جہاد کرنے کے لیے نکلتا ہے تو میں سے ضرور جنت میں داخل کروں گا، چاہے وہ (میدان جنگ میں) قتل وہ جائے یا اسی راستے میں فوت ہےجائے۔ یا پھر وہ (اللہ تعالیٰ) اس کو اس کے کھر واپس لائے گا جس سےوہ نکلا تھا جب کہ اس کو ثواب بھی حاصل ہو گا اور عنیمت بھی جواس کے مقدر میں ہے۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5043
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5044
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5032
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں (جہاد کے لیے) نکلتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ضمانت دے رکھی ہے کہ اگروہ صرف مجھ پر ایمان رکھتے ہوئے او ر خالص میرے راستے میں جہاد کرنے کے لیے نکلتا ہے تو میں سے ضرور جنت میں داخل کروں گا، چاہے وہ (میدان جنگ میں) قتل وہ جائے یا اسی راستے میں فوت ہےجائے۔ یا پھر وہ (اللہ تعالیٰ) اس کو اس کے کھر واپس لائے گا جس سےوہ نکلا تھا جب کہ اس کو ثواب بھی حاصل ہو گا اور عنیمت بھی جواس کے مقدر میں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو جو اس کی راہ میں نکلتا ہے (یعنی جہاد کے لیے) اور اس کا یہ نکلنا صرف اللہ پر اپنے ایمان کے تقاضے اور اس کی راہ میں جہاد کے جذبے سے ہے (تو اللہ نے ایسے شخص کی) ضمانت اپنے ذمہ لے لی ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا چاہے وہ قتل ہو کر مرا ہو، یا اپنی طبعی موت پائی ہو، یا میں اسے اس اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ جو اسے ملا ہو اور جو بھی ملا ہو، اس کے اپنے اس گھر پر واپس پہنچا دوں گا جہاں سے وہ جہاد کے لیے نکلا تھا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah said: "I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: 'Allah has promised the one who goes out in His cause 'and does not go out except with faith in Me and for Jihad in My cause,' that he is guaranteed to enter Paradise no matter how, either he is killed, or he dies, or he will be brought back to his home from which he departed having acquired whatever he acquired of reward or spoils of war.