Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Paying the Khumus)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5031.
حضرت ابن عباس ؓ سےروایت ہے، انھوں نے فرمایا: قبیلہ عبد القیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا: ہم قبیلہ عبد القیس والے ربیعہ کی نسل سے ہیں۔ ہم حرمت والے مہینے کے علاوہ آپ کے پاس نہیں آسکتے۔ ہمیں کی اہم چیز کا حکم دیجیے جو ہم آپ سے سیکھیں اور واپس جاکر اپنے علاقے کے لوکوں کو اسکی دعوت دیں۔تب آپ نے فرمایا: ”میں تمھیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں: (پہلی چار چیزیں یہ ہیں) اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، پھر آپ نے ان کے لیے ایمان کی تفصیل بیان فرمائی۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ نماز پاپندی سے ادا کرنا، زکاۃ ادا کر نا اور اپنی بھیجنا اور میں تمھیں خشک کدو کے برتنوں، سبز مٹکے اور تارکول والے مٹکے سے روکتا ہوں۔
تشریح:
(1) یہ حدیث مبارکہ شہادتین کے اقرار کے ساتھ ساتھ اقامت نماز، ادائیگی زکاۃ، رمضان المبارک کے روزے رکھنے اور مال عنیمت میں سے خمس ادا کرنے کی اہمیت واضح کرتی ہے، نیز یہ بھی رہنمائی کرتی ہے کہ مال غنمیت سے خمس نکالنا ضروری ہے، خواہ مال تھوڑا ہویا زیادہ۔ (2) ”ربیعہ کی نسل سے ہیں“ مضر اور ربیعہ دوبھائی تھے۔ قریش مکہ مضر کی اولاد سےتھے اور یمنی لوگ ربیعہ کی۔ عبد القیس بھی یمنی تھے۔ ان کو روکتے تھے جس کے بارے میں شبہ ہوتا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جارہا ہے۔ ویسے بھی مضر قبائل ربیعہ کے قبیلوں کواپنا دشمن خیال کرتے تھے اور ان کے قتل اور لوٹ مار کو جائز سمجھتے تھے، اس لیے وہ حرمت والے مہینے کے علاوہ امن وامان سےنہیں گزر سکتے تھے۔(باقی بحث گزر چکی ہیں۔)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5045
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5046
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5034
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت ابن عباس ؓ سےروایت ہے، انھوں نے فرمایا: قبیلہ عبد القیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا: ہم قبیلہ عبد القیس والے ربیعہ کی نسل سے ہیں۔ ہم حرمت والے مہینے کے علاوہ آپ کے پاس نہیں آسکتے۔ ہمیں کی اہم چیز کا حکم دیجیے جو ہم آپ سے سیکھیں اور واپس جاکر اپنے علاقے کے لوکوں کو اسکی دعوت دیں۔تب آپ نے فرمایا: ”میں تمھیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں: (پہلی چار چیزیں یہ ہیں) اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، پھر آپ نے ان کے لیے ایمان کی تفصیل بیان فرمائی۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ نماز پاپندی سے ادا کرنا، زکاۃ ادا کر نا اور اپنی بھیجنا اور میں تمھیں خشک کدو کے برتنوں، سبز مٹکے اور تارکول والے مٹکے سے روکتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث مبارکہ شہادتین کے اقرار کے ساتھ ساتھ اقامت نماز، ادائیگی زکاۃ، رمضان المبارک کے روزے رکھنے اور مال عنیمت میں سے خمس ادا کرنے کی اہمیت واضح کرتی ہے، نیز یہ بھی رہنمائی کرتی ہے کہ مال غنمیت سے خمس نکالنا ضروری ہے، خواہ مال تھوڑا ہویا زیادہ۔ (2) ”ربیعہ کی نسل سے ہیں“ مضر اور ربیعہ دوبھائی تھے۔ قریش مکہ مضر کی اولاد سےتھے اور یمنی لوگ ربیعہ کی۔ عبد القیس بھی یمنی تھے۔ ان کو روکتے تھے جس کے بارے میں شبہ ہوتا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جارہا ہے۔ ویسے بھی مضر قبائل ربیعہ کے قبیلوں کواپنا دشمن خیال کرتے تھے اور ان کے قتل اور لوٹ مار کو جائز سمجھتے تھے، اس لیے وہ حرمت والے مہینے کے علاوہ امن وامان سےنہیں گزر سکتے تھے۔(باقی بحث گزر چکی ہیں۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بنی عبدقیس کا وفد آیا، تو ان لوگوں بہت کہا: ہم لوگ قبیلہ ربیعہ سے ہیں، ہم آپ تک حرمت والے مہینوں کے علاوہ کبھی نہیں آ سکتے تو آپ ہمیں کچھ باتوں کا حکم دیجئیے جو ہم آپ سے سیکھیں اور جو ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں اسے ان تک پہنچا سکیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے روکتا ہوں: اللہ پر ایمان پھر آپ نے اس کی تشریح کی کہ ایک تو گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں دوسرے نماز قائم کرنا، تیسرے زکاۃ کی ادائیگی، چوتھے یہ کہ مال غنیمت کا پانچواں (خمس) مجھے لا کر دینا، اور میں تمہیں روکتا ہوں: (تمبی) کدو کے بنے پیالے، لاکھی (سبز رنگ) کے برتنوں، لکڑی کے برتنوں اور تار کول ملے ہوئے برتنوں کے استعمال سے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : حدیث میں وارد الفاظ میں دباء، حنتم، مزفت، نقیر، مختلف برتنوں کے نام ہیں جس میں زمانہ جاہلیت میں شراب بنائی اور رکھی جاتی تھی جب شراب حرام ہوئی تو آپ نے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا تھا تاکہ لوگ شراب سے بالکل دور ہو جائیں اور اس حرام چیز کو اپنی زندگی سے مکمل طور پر خارج کر دیں، یہ حکم سد باب کے طور پر تھا، جب مسلمان اس وبا سے دور ہو گئے تو ان برتنوں کے استعمال کی اجازت ہو گئی، بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے «كنت نهيتكم عن الأوعية فاشربوا في كل وعاء» اس حدیث کی رو سے اب سابقہ نہی کا حکم منسوخ ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said: "The delegation of 'Abdul-Qais came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: 'We are a group of people from (the tribe of) Rabi'ah, and we can only reach you during the sacred month. Tell us something that we can take from you and to which we may call those who are behind us.' He said: 'I command you to do four things and I forbid you from four: Faith in Allah'- and he explained that to them- 'bearing witness that there is none worthy of worship except Allah, establishing Salah, paying Zakah, and giving me one-fifth (the Khumus) of the spoils of war you acquire. And I forbid you from Ad-Dubba', Al-Hantam, Al-Muqayyir, and Al-Muzaffat.