Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: Al-Mutanammisat (The Women That Have Their Eyebrows Plucked))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5098.
حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے سرکے بال نہ ہونے کے برابر ہیں تو کیا میں جعلی بال لگاسکتی ہوں؟ انہوں نے فرمایا : نہیں۔ وہ کہنے لگی: کیا یہ بات آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی یا کتاب اللہ میں پائی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے بھی سنی اور میں اسے کتاب اللہ میں بھی پاتا ہوں۔ پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
تشریح:
(1) ”کتاب اللہ میں پاتا ہوں“ یعنی انہوں نے قرآن کی اس عمومی دلیل ﴿وَما ءاتىكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىكُم عَنهُ فَانتَهوا﴾ کے پیش نظر جعلی بال نہ لگانے کو قرآن کا حکم قرار دیا کیونکہ آپ کی بات کو ماننا قرآن کاحکم ہے۔ لیکن اپنے اجتہاد سے مستنبط کیے گئے مسائل کی نسبت اللہ تعالی کی طرف یارسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے، مثلاً: قیاسی مسائل کی بابت کہنا کہ یہ اللہ تعالی یا اس کے رسول ﷺ کا فرمان ہے، یہ درست نہیں، اس لیے اس سے محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) یہ حدیث مفصلاً صحیح مسلم میں آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑے بالوں والی عورت بھی جعلی بال نہیں لگا سکتی کیونکہ اس میں جعل سازی اور دھوکا دہی پائی جاتی ہے، نیز تھوڑے زیادہ کی کوئی حدبندی نہیں۔ اس طرح تو ہر عورت کہہ سکتی ہے کہ میرے بال تھوڑے ہیں۔ جو چیز شریعت نے ناجائز اور حرام قرار دی ہے وہ ناجائزاور حرام ہی ہے اس میں قطعاً دوسری کوئی رائے نہیں ۔ واللہ أعلم
حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے سرکے بال نہ ہونے کے برابر ہیں تو کیا میں جعلی بال لگاسکتی ہوں؟ انہوں نے فرمایا : نہیں۔ وہ کہنے لگی: کیا یہ بات آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی یا کتاب اللہ میں پائی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے بھی سنی اور میں اسے کتاب اللہ میں بھی پاتا ہوں۔ پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”کتاب اللہ میں پاتا ہوں“ یعنی انہوں نے قرآن کی اس عمومی دلیل ﴿وَما ءاتىكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىكُم عَنهُ فَانتَهوا﴾ کے پیش نظر جعلی بال نہ لگانے کو قرآن کا حکم قرار دیا کیونکہ آپ کی بات کو ماننا قرآن کاحکم ہے۔ لیکن اپنے اجتہاد سے مستنبط کیے گئے مسائل کی نسبت اللہ تعالی کی طرف یارسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے، مثلاً: قیاسی مسائل کی بابت کہنا کہ یہ اللہ تعالی یا اس کے رسول ﷺ کا فرمان ہے، یہ درست نہیں، اس لیے اس سے محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) یہ حدیث مفصلاً صحیح مسلم میں آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑے بالوں والی عورت بھی جعلی بال نہیں لگا سکتی کیونکہ اس میں جعل سازی اور دھوکا دہی پائی جاتی ہے، نیز تھوڑے زیادہ کی کوئی حدبندی نہیں۔ اس طرح تو ہر عورت کہہ سکتی ہے کہ میرے بال تھوڑے ہیں۔ جو چیز شریعت نے ناجائز اور حرام قرار دی ہے وہ ناجائزاور حرام ہی ہے اس میں قطعاً دوسری کوئی رائے نہیں ۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مسروق سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آ کر کہا: میرے سر پر بال بہت کم ہیں، کیا میرے لیے صحیح ہو گا کہ میں اپنے بال میں کچھ بال جوڑ لوں؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے یا کتاب اللہ (قرآن) میں ہے؟ کہا: نہیں، بلکہ میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ اور اسے کتاب اللہ (قرآن) میں بھی پاتا ہوں …، اور پھر آگے حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Masruq that: A woman came to 'Abdullah bin Mas'ud and said: "I am a woman with little hair, is it alright for me to add extensions to my hair?" He said: "No." She said: "Is it something that you heard from the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) or that you find in the Book of Allah?" He said: "No, rather I heard it from the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and I find it in the Book of Allah." And he quoted the Hadith.