Sunan-nasai:
Mention The Fitrah (The Natural Inclination Of Man)
(Chapter: Rubbing The Hand On The Ground After Istinja)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
51.
حضرت جریر ؓ سےروایت ہے کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ بیت الخلا میں گئے، قضائے حاجت کی، پھر آپ نے فرمایا: ’’اے جریر! پانی لاؤ۔‘‘ میں پانی لایا۔ آپ نے اس سے استنجا کیا، پھر اپنا ہاتھ زمین پر ملا۔ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) نے فرمایا: یہ حدیث شریک کی روایت سے زیادہ درست ہے۔ واللہ أعلم۔
تشریح:
(1) شریک کی روایت سے مراد اوپر والی روایت (۵۰) ہے جسے شریک نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ظاہر کیا ہے جبکہ یہ روایت ابان سے ہے۔ ابان نے اس روایت کو حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کیا ہے جبکہ امام صاحب کا مقصد یہ ہے کہ یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت جریر سے ہونی چاہیے، البتہ اس صورت میں یہ روایت منقطع ہوگی کیونکہ محدثین کے فیصلے کے مطابق ابان کے استاذ ابراہیم بن جریر کا اپنے والد حضرت جریر رضی اللہ عنہ سےسماع ثابت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا اس روایت کو زیادہ صحیح کہنے سے یہ مقصود نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے بلکہ ان کا مقصود یہ ہے کہ اس روایت میں بجائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حضرت جریر کا ذکر درست ہے۔ بعض محدثین نے دونوں روایات کو صحیح قرار دیا ہے، یعنی یہ روایت حضرت جریر سے بھی منقول ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےبھی کیونکہ شریک حفظ و ضبط میں ابان سے کم نہیں بلکہ امام مسلم نے شریک کی روایات صحیح مسلم میں بیان کی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) ’’قال أبو عبدالرحمن‘‘ یہ مقولہ خود امام نسائی رحمہ اللہ کا بھی ہوسکتا ہے، یعنی اپنے آپ کو کنیت کے ساتھ غائبانہ انداز میں ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے شاگرد شیخ ابن سنی کا مقولہ ہو۔ پہلی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت جریر ؓ سےروایت ہے کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ بیت الخلا میں گئے، قضائے حاجت کی، پھر آپ نے فرمایا: ’’اے جریر! پانی لاؤ۔‘‘ میں پانی لایا۔ آپ نے اس سے استنجا کیا، پھر اپنا ہاتھ زمین پر ملا۔ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) نے فرمایا: یہ حدیث شریک کی روایت سے زیادہ درست ہے۔ واللہ أعلم۔
حدیث حاشیہ:
(1) شریک کی روایت سے مراد اوپر والی روایت (۵۰) ہے جسے شریک نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ظاہر کیا ہے جبکہ یہ روایت ابان سے ہے۔ ابان نے اس روایت کو حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کیا ہے جبکہ امام صاحب کا مقصد یہ ہے کہ یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت جریر سے ہونی چاہیے، البتہ اس صورت میں یہ روایت منقطع ہوگی کیونکہ محدثین کے فیصلے کے مطابق ابان کے استاذ ابراہیم بن جریر کا اپنے والد حضرت جریر رضی اللہ عنہ سےسماع ثابت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا اس روایت کو زیادہ صحیح کہنے سے یہ مقصود نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے بلکہ ان کا مقصود یہ ہے کہ اس روایت میں بجائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حضرت جریر کا ذکر درست ہے۔ بعض محدثین نے دونوں روایات کو صحیح قرار دیا ہے، یعنی یہ روایت حضرت جریر سے بھی منقول ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےبھی کیونکہ شریک حفظ و ضبط میں ابان سے کم نہیں بلکہ امام مسلم نے شریک کی روایات صحیح مسلم میں بیان کی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) ’’قال أبو عبدالرحمن‘‘ یہ مقولہ خود امام نسائی رحمہ اللہ کا بھی ہوسکتا ہے، یعنی اپنے آپ کو کنیت کے ساتھ غائبانہ انداز میں ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے شاگرد شیخ ابن سنی کا مقولہ ہو۔ پہلی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، آپ قضائے حاجت کی جگہ میں آئے، اور آپ نے حاجت پوری کی، پھر فرمایا: ”جریر! پانی لاؤ“ ، میں نے پانی حاضر کیا، تو آپ ﷺ نے پانی سے استنجاء کیا، اور راوی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا: پھر آپ ﷺ نے ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibrahim bin Jarir narrated that his father said: “I was with the Prophet (ﷺ) and he went to Al-Khala’ (toilet) and relieved himself, then he said: “Jarir, bring Tahur (a means of purification).” So I brought him some water and he performed istinja’ with water, and did like this with hand, rubbing it on the ground. (Sahih) Abu ‘Abdur-Rahman (An-Nasa’i) said: “This resembles more with what is correct than the (previous) narration of Sharik, and Allah knows best.”