Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: Prohibition on Wearing Sira')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5295.
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے مسجد (نبوی) کے دروازے پر ریشمی دھاریوں والا حلہ فروخت ہوتے دیکھا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ یہ حلہ جمعۃ المبارک کے دن اور وفود کی آمد کے موقع پر استعمال کے لیے خرید لیں تو مناسب رہے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسے حلے تو وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ پھر بعد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اسی قسم کے کچھ حلے آئے تو آپ نے مجھے بھی ان میں سے ایک حلہ دے دیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے یہ حلہ مجھے دیا ہے جب کہ آپ نے تو اس بارے میں بڑے سخت الفاظ فرمائےتھے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تجھے یہ پہننے کے لیے نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تو کسی اور کو پہنائے یا بیچ لے۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ اپنے ایک مشرک اخیافی بھائی کو دے دیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تجمل اور خوبصورتی اختیار کرنا بالخصوص خاص موقعوں پر پسندیدہ ہے۔ (2) مسجد کے دروازے پر خرید وفروخت کرنا جائز ہے نیز فضلاء اور عظماء اہل علم اور نیک لوگوں کا منڈی میں جانا شرعاً درست ہے خواہ وہ خرید وفروخت کے لیے ہو یا ویسے ہی جائزہ لینے کے لیے ہو۔ (3) ریشمی کپڑا کا کاروبار جائز ہے۔ (4) کافر قرابت دار کےساتھ صلہ رحمی کرنا نیز اسے ہدیہ وغیرہ دینا بھی شرعاً جائز ہے۔ اس کا مقصد اگر تالیف قلب اور اسے اسلام کے قریب کرنا ہو تو یہ سونے پر سہاگا ہے۔ (5) ایسا حلہ دھاریوں کی وجہ سے ممنوع نہیں بلکہ ریشمی دھاریون کی وجہ سے ممنوع ہے۔ (6) ”کوئی حصہ نہیں“ مراد کفار ہیں یعنی اس قسم کے کپڑے تو کافر پہنتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جوشخص ایسے کپڑے پہنے گا وہ کافر بن جائے گا کیونکہ ریشم پہننا کبیرہ گناہ ضرور ہے کفر نہیں اور اگر ریشم پہننے سےمقصود دوسرے لوگوں کی تحقیر کرنا ہو یا ازراہ تکبر ریشم پہنا جائے تو گناہ کی قباحت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ (7) ”بھائی کو دے دیا“ جوچیز کچھ افراد کے لیے حلال ہو کچھ کے لیے حرام، اس کا لین دین، خرید وفروخت، تحفہ و عطیہ وغیرہ سب کچھ جائز ہے مثلاً: ریشم اور سونا وغیرہ البتہ جوچیز سب کےلیے حرام ہے اس کا کاروبار لین دین خرید وفروخت تحفہ عطیہ وغیرہ سب کچھ حرام ہے مثلا: شراب اوربت وغیرہ۔ (8) یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ریشم صرف مردوں کےلیے ناجائز اور حرام ہے عورتوں کو ہر قسم کا ریشم پہننے کی مطلقاً اجازت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5309
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5310
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5297
تمہید کتاب
مجتبیٰ ، سنن کبری ہی سے مختصر ہے ، اس لیے مجتبی کی اکثر روایات سنن کبری میں آتی ہین ۔ كتاب الزينة (سنن كبرى) میں آئندہ روایات میں سےگزر چکی ہیں ۔ بہت سی روایات نئی بھی ہیں ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے مسجد (نبوی) کے دروازے پر ریشمی دھاریوں والا حلہ فروخت ہوتے دیکھا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ یہ حلہ جمعۃ المبارک کے دن اور وفود کی آمد کے موقع پر استعمال کے لیے خرید لیں تو مناسب رہے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسے حلے تو وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ پھر بعد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اسی قسم کے کچھ حلے آئے تو آپ نے مجھے بھی ان میں سے ایک حلہ دے دیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے یہ حلہ مجھے دیا ہے جب کہ آپ نے تو اس بارے میں بڑے سخت الفاظ فرمائےتھے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تجھے یہ پہننے کے لیے نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تو کسی اور کو پہنائے یا بیچ لے۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ اپنے ایک مشرک اخیافی بھائی کو دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تجمل اور خوبصورتی اختیار کرنا بالخصوص خاص موقعوں پر پسندیدہ ہے۔ (2) مسجد کے دروازے پر خرید وفروخت کرنا جائز ہے نیز فضلاء اور عظماء اہل علم اور نیک لوگوں کا منڈی میں جانا شرعاً درست ہے خواہ وہ خرید وفروخت کے لیے ہو یا ویسے ہی جائزہ لینے کے لیے ہو۔ (3) ریشمی کپڑا کا کاروبار جائز ہے۔ (4) کافر قرابت دار کےساتھ صلہ رحمی کرنا نیز اسے ہدیہ وغیرہ دینا بھی شرعاً جائز ہے۔ اس کا مقصد اگر تالیف قلب اور اسے اسلام کے قریب کرنا ہو تو یہ سونے پر سہاگا ہے۔ (5) ایسا حلہ دھاریوں کی وجہ سے ممنوع نہیں بلکہ ریشمی دھاریون کی وجہ سے ممنوع ہے۔ (6) ”کوئی حصہ نہیں“ مراد کفار ہیں یعنی اس قسم کے کپڑے تو کافر پہنتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جوشخص ایسے کپڑے پہنے گا وہ کافر بن جائے گا کیونکہ ریشم پہننا کبیرہ گناہ ضرور ہے کفر نہیں اور اگر ریشم پہننے سےمقصود دوسرے لوگوں کی تحقیر کرنا ہو یا ازراہ تکبر ریشم پہنا جائے تو گناہ کی قباحت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ (7) ”بھائی کو دے دیا“ جوچیز کچھ افراد کے لیے حلال ہو کچھ کے لیے حرام، اس کا لین دین، خرید وفروخت، تحفہ و عطیہ وغیرہ سب کچھ جائز ہے مثلاً: ریشم اور سونا وغیرہ البتہ جوچیز سب کےلیے حرام ہے اس کا کاروبار لین دین خرید وفروخت تحفہ عطیہ وغیرہ سب کچھ حرام ہے مثلا: شراب اوربت وغیرہ۔ (8) یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ریشم صرف مردوں کےلیے ناجائز اور حرام ہے عورتوں کو ہر قسم کا ریشم پہننے کی مطلقاً اجازت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ مسجد کے دروازے کے پاس میں نے ایک ریشمی دھاری والا جوڑا بکتے دیکھا، تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے جمعہ کے دن کے لیے اور اس وقت کے لیے جب آپ کے پاس وفود آئیں خرید لیتے (تو اچھا ہوتا)۱؎، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ سب وہ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ پھر اس میں سے کئی جوڑے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، تو ان میں سے آپ نے ایک جوڑا مجھے دے دیا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ جوڑا آپ نے مجھے دے دیا، حالانکہ اس سے پہلے آپ نے اس کے بارے میں کیا کیا فرمایا تھا؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، بلکہ کسی (اور) کو پہنانے یا بیچنے کے لیے دیا ہے“، تو عمر ؓ نے اسے اپنے ایک ماں جائے بھائی کو دے دیا جو مشرک تھا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات پر کوئی نکیر نہیں کی، اس سے ثابت ہوا کہ ان مواقع کے لیے اچھا لباس اختیار کرنے کی بات پر آپ نے صبر کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Umar bin Al-Khattab that: He saw a Hullah of Sira' silk being offered for sale at the door of the Masjid. I said: "O Messenger of Allah, why don't you buy this and wear it on Fridays, and (when meeting) the delegations when they come to you?" The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "This is only worn by one who has no share in the Hereafter." After that some (other) Hullahs were brought to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and he gave me one. He said: "O Messenger of Allah, you gave me this when you said what you said about it!" The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "I did not give it to you to wear it! Rather I gave it to you to give away or to sell." So 'Umar gave it to a brother of his son on his mother's side who was an idolater.