Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: Sitting on Chairs)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5377.
حضرت ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ خطاب فرما رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک اجنبی آدمی آیا ہے، اپنے دین کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ دین کیا ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ متوجہ ہوئے، اپنا خطبہ چھوڑ اور میرے پاس پہنچ گئے۔ آپ کے پاس ایک کرسی لائی گئی میرا خیال ہے کہ اس کے پائے لوہے کے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اس پر تشریف فرما ہوگئے۔ اور مجھے وہ علم سکھانے لگے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا تھا، پھر خطبے کی جگہ تشریف لے گئے اور اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔
تشریح:
(1) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی تواضع عالی ظرفی اور اہل اسلام کے ساتھ آپ کی بے پناہ محبت و شفقت کی دلیل ہے، نیز اس سے یہ معلوم ہوا کہ اہل علم کو سائلین اور طلبہ علم کے ساتھ انتہائی نرمی اور شفقت کا رویہ اپنانا چاہیے۔ علم کے پیاسوں کی علمی پیاس بجھانی چاہیے اور فتویٰ طلب کرنے والوں کو کتاب و سنت کے مطابق صحیح اور درست فتویٰ دے کر ان کی کما حقہ دینی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خطبہ مبارک ادھورا چھوڑ کر سائل کی علمی پیاس اور تشنگی بجھائی، اسے قرآن و حدیث کا علم سکھایا اور بعد ازاں اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔ فِدَاه أبي و نفسي و روحي۔ (2) باب كا مقصود یہ ہے کہ کرسی پر بیٹھنا جب کہ دیگر لوگ نیچے بیٹھے ہوں، منع نہیں، اگر اس کی ضرورت ہو، مثلاً: خطاب کرنا تا کہ سب لوگ سننے کے ساتھ ساتھ آسانی سے دیکھ بھی سکیں، ویسے بھی کرسی پر بیٹھنا تکبر کو مستلزم نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5391
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5392
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5379
تمہید کتاب
مجتبیٰ ، سنن کبری ہی سے مختصر ہے ، اس لیے مجتبی کی اکثر روایات سنن کبری میں آتی ہین ۔ كتاب الزينة (سنن كبرى) میں آئندہ روایات میں سےگزر چکی ہیں ۔ بہت سی روایات نئی بھی ہیں ۔
حضرت ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ خطاب فرما رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک اجنبی آدمی آیا ہے، اپنے دین کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ دین کیا ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ متوجہ ہوئے، اپنا خطبہ چھوڑ اور میرے پاس پہنچ گئے۔ آپ کے پاس ایک کرسی لائی گئی میرا خیال ہے کہ اس کے پائے لوہے کے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اس پر تشریف فرما ہوگئے۔ اور مجھے وہ علم سکھانے لگے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا تھا، پھر خطبے کی جگہ تشریف لے گئے اور اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی تواضع عالی ظرفی اور اہل اسلام کے ساتھ آپ کی بے پناہ محبت و شفقت کی دلیل ہے، نیز اس سے یہ معلوم ہوا کہ اہل علم کو سائلین اور طلبہ علم کے ساتھ انتہائی نرمی اور شفقت کا رویہ اپنانا چاہیے۔ علم کے پیاسوں کی علمی پیاس بجھانی چاہیے اور فتویٰ طلب کرنے والوں کو کتاب و سنت کے مطابق صحیح اور درست فتویٰ دے کر ان کی کما حقہ دینی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خطبہ مبارک ادھورا چھوڑ کر سائل کی علمی پیاس اور تشنگی بجھائی، اسے قرآن و حدیث کا علم سکھایا اور بعد ازاں اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔ فِدَاه أبي و نفسي و روحي۔ (2) باب كا مقصود یہ ہے کہ کرسی پر بیٹھنا جب کہ دیگر لوگ نیچے بیٹھے ہوں، منع نہیں، اگر اس کی ضرورت ہو، مثلاً: خطاب کرنا تا کہ سب لوگ سننے کے ساتھ ساتھ آسانی سے دیکھ بھی سکیں، ویسے بھی کرسی پر بیٹھنا تکبر کو مستلزم نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابورفاعہ ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا، آپ خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک اجنبی شخص اپنے دین کے بارے میں معلومات کرنے آیا ہے، اسے نہیں معلوم کہ اس کا دین کیا ہے؟ چنانچہ رسول اللہ ﷺ متوجہ ہوئے اور خطبہ روک دیا یہاں تک کہ آپ مجھ تک پہنچ گئے، پھر ایک کرسی لائی گئی، میرا خیال ہے اس کے پائے لوہے کے تھے، رسول اللہ ﷺ اس پر بیٹھے اور مجھے سکھانے لگے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھایا تھا، پھر آپ لوٹ کر آئے اور اپنا خطبہ مکمل کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Humaid bin Hilal said: "Abu Rifa'ah said: 'I came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) while he was delivering a Khutbah, and said: "O Messenger of Allah, a stranger has come to ask about his religion, for he does not know what his religion is." The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) stopped delivering his Khutbah and turned to me. A chair was brought, and I think its legs were of iron. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) sat down on it and started to teach me what Allah has taught him, then he went and completed his Khutbah.