باب: جب لوگ کسی شخص کو اپنا فیصل مقرر کریں اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے (تو یہ اچھی بات ہے)
)
Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: If People Appoint a Man as Judge, and He Passes Judgment Among Them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5387.
حضرت ہانی رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ جب وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے لوگوں کو اسے ابو الحکم کی کنیت سے پکارتے سنا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”اصل حکم تو اللہ تعالیٰ ہے اور اسی کا فیصلہ چلتا ہے۔ پھر تجھے ابو الحکم کیوں کہا جاتا ہے۔؟“ اس نے کہا: میری قوم میں جب کوئی اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں۔ میں ان میں فیصلہ کر دیتا ہوں جسے وہ دونوں فریق پسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تیرے کتنے لڑکے ہیں۔“ میں نے کہا: شریح، عبد اللہ اور مسلم۔ آپ نے فرمایا: ”تیری کنیت آج سے ابو شریح ہے۔“ پھر آپ نے اس کے لیے اور اس کی اولاد کے لیے دعا فرمائی۔
تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ثالث کا کیا ہوا صحیح اور درست فیصلہ نافذ ہونا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہانی رضی اللہ عنہا کے فعل کی تحسین فرمائی ہے۔ (2) بڑے بیٹے کے نام پر کنیت رکھنا مستحب ہے کیونکہ بڑا ہونے کی وجہ سے یہ اس کا حق بنتا ہے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبیح اور برے نام کو بدل دینا مستحب اور پسندیدہ شرعی عمل ہے، نیز یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے کی طرف راہ نمائی بھی کرتی ہے کہ ”ابو الحکم“ کنیت رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے، اس لیے کہ عربی میں حکم فیصلہ کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ابو الحکم سے مراد ہے سب سے بڑا فیصلہ کرنے والا۔ ظاہر ہے اس میں فخر اور تعلی کا اظہار ہے جسے شریعت مناسب نہیں سمجھتی، اس لیے آپ نے اس کنیت کو حقیقی کنیت سے تبدیل فرما دیا۔ (4) ”یہ بہت اچھی بات ہے۔“ عربی جملے کے لفظی معنی ہیں: ”اس سے اچھی کوئی بات نہیں۔“ مفہوم وہی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : و هذا إسناد جيد , رجاله ثقات رجال مسلم غير يزيد بن المقدام
قال الحافظ فى " التقريب " : " صدوق , أخطأ عبد الحق فى تضعيفه " .
قلت : و قد تابعه على هذه الزيادة دون الدعاء قيس بن الربيع عن
المقدام به .
أخرجه الحاكم ( 4/279 ) و قال : " تفرد به قيس عن المقدام و ليس من شرط الكتاب
" كذا قال .
( تنبيه ) قال السندى فى حاشيته على " النسائى :
" و شرح هذا هو المشهور بالقضاء فيما بين التابعين " ! .
قلت : و هذا وهم , ذاك إنما هو شريح بن الحارث المتقدم فى الكتاب
( 2603 و 2607 ) و أما هذا , فلم يكن قاضيا , و إنما كان على شرطة على رضى الله
عنه .
أثر : أن عمر و أبيا تحاكما إلى زيد بن ثابت و تحاكم عثمان و طلحة إلى جبير بن
مطعم و لم يكن أحد منهما قاضيا " .
8/238 :
أما التحاكم إلى زيد , فأخرجه البيهقى ( 10/145 ) عن طريق محمد بن الجهم السمرى
( و فى نسخة : السهرى ) : حدثنا يعلى بن عبيد عن إسماعيل عن عامر قال :
" كان بين عمر و أبى رضى الله عنهما خصومة فى حائط , فقال عمر رضى الله عنه
: بينى و بينك زيد بن ثابت , فانطلقا , فدق عمر الباب , فعرف زيد صوته , ففتح
الباب , فقال : يا أمير المؤمنين ألا بعثت إلى حتى آتيك ? فقال : فى بيته يؤتى
الحكم . و ذكر الحديث " .
قلت : هذا مرسل , الشعبى لم يدرك الحادثة .
و محمد بن الجهم لم أعرفه <1> . و فى " الجرح و التعديل " ( 3/2/224 ) :
" محمد بن جهم بن عثمان بن أبى جهمة , و كان جده على سياقة غنم خيبر يوم
استفتحها رسول الله صلى الله عليه وسلم . روى عن أبيه عن جده عن عمر بن الخطاب
رضى الله عنه حديث نصر بن الحجاج . روى عنه محمد بن سعيد بن زياد الأثرم " .
فلعله هذا فإنه من هذه الطبقة .
و أما التحاكم إلى جبير بن مطعم , فلم أقف عليه <2>
حضرت ہانی رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ جب وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے لوگوں کو اسے ابو الحکم کی کنیت سے پکارتے سنا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”اصل حکم تو اللہ تعالیٰ ہے اور اسی کا فیصلہ چلتا ہے۔ پھر تجھے ابو الحکم کیوں کہا جاتا ہے۔؟“ اس نے کہا: میری قوم میں جب کوئی اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں۔ میں ان میں فیصلہ کر دیتا ہوں جسے وہ دونوں فریق پسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تیرے کتنے لڑکے ہیں۔“ میں نے کہا: شریح، عبد اللہ اور مسلم۔ آپ نے فرمایا: ”تیری کنیت آج سے ابو شریح ہے۔“ پھر آپ نے اس کے لیے اور اس کی اولاد کے لیے دعا فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ثالث کا کیا ہوا صحیح اور درست فیصلہ نافذ ہونا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہانی رضی اللہ عنہا کے فعل کی تحسین فرمائی ہے۔ (2) بڑے بیٹے کے نام پر کنیت رکھنا مستحب ہے کیونکہ بڑا ہونے کی وجہ سے یہ اس کا حق بنتا ہے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبیح اور برے نام کو بدل دینا مستحب اور پسندیدہ شرعی عمل ہے، نیز یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے کی طرف راہ نمائی بھی کرتی ہے کہ ”ابو الحکم“ کنیت رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے، اس لیے کہ عربی میں حکم فیصلہ کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ابو الحکم سے مراد ہے سب سے بڑا فیصلہ کرنے والا۔ ظاہر ہے اس میں فخر اور تعلی کا اظہار ہے جسے شریعت مناسب نہیں سمجھتی، اس لیے آپ نے اس کنیت کو حقیقی کنیت سے تبدیل فرما دیا۔ (4) ”یہ بہت اچھی بات ہے۔“ عربی جملے کے لفظی معنی ہیں: ”اس سے اچھی کوئی بات نہیں۔“ مفہوم وہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہانی ؓ سے روایت ہے کہ وہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ ہانی کو ابوالحکم کی کنیت سے پکارتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلایا اور ان سے فرمایا: ”حکم تو اللہ ہے اور حکم کرنا بھی اسی کا کام ہے“، وہ بولے: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس چلے آتے ہیں، میں ان کے درمیان فیصلے کرتا ہوں اور دونوں فریق رضامند ہو جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے، تمہارے کتنے لڑکے ہیں؟“ وہ بولے: شریح، عبداللہ اور مسلم، آپ نے فرمایا: ”ان میں بڑا کون ہے؟“ وہ بولے: شریح، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو تم اب سے ابوشریح ہو“، پھر آپ نے ان کے لیے اور ان کے بیٹے کے لیے دعا کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Shuraih bin Hani' from his father, that: When he came to the Messenger of Allah(صلی اللہ علیہ وسلم) and he heard them calling Hani' by the nickname of Abu Al-Hakam, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) called him and said to him: "Allah is Al-Hakam (the Judge) and judgment is His. Why are you known as Abu Al-Hakam?" He said: "If my people differ concerning something, they come to me, and I pass judgment among them, and both sides accept it." He said: "How good this is. Do you have any children?" He said: "I have Shuraih, and 'Abdullah, and Muslim." He said: "Who is the eldest of them?" He said: "Shuraih." He said: "Then you are Abu Shuraih," and he supplicated for him and his son.