باب: کان اور آنکھ کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Seeking Refuge with Allah
(Chapter: Seeking Refuge from the Evil of Hearing and Seeing)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5455.
حضرت شکل بن حمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبئ اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کہا:اے اللہ کے نبی! مجھے ایسے کلمات سکھائیے جن کے ساتھ میں پناہ حاصل کیا کروں۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: ”(یوں) کہہ (اے اللہ!) میں اپنے کان‘ آنکھ‘ زبان‘ دل اور منی کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“ حتیٰ کہ میں نے ان کلمات کو یاد کر لیا۔ (راوی حدیث) سعد بن اوس نے کہا: منی سے مراد اس (شخص) کا پانی‘ یعنی نطفہ ہے۔ وکیع (ابن الجراح) نے اس حدیث کے لفظوں میں اس (ابو نعیم) کی مخالفت کی ہے۔ (اگلی روایت کے الفاظ دیکھنے سے اختلاف صریح طور پر کھل جاتا ہے)۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5469
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5470
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5457
تمہید کتاب
اس سے پہلی کتاب’’آداب الاقضاۃ ‘‘تھی‘یہ‘‘کتاب الاستعاذہ ‘‘ہے ۔شائد ان دونوں کے درمیان مناسبت یہ بنتی ہو کہ قاضی اور حاکم بن کر لوگوں کے مابین اختلافات کے فیصلے کرنا انتہا ئی حساس اور خطرناک معاملہ ہے ۔قاضی کی معمولی سی غلطی یا غفلت سے معاملہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے ۔اس کو ٹھوکر لگنے سے ایک کا حق دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے اور اسی طرح ایک حلال چیز قاضی اور جج کے فیصلے سے اس کے اصل مالک کے لیے حرام ٹھہرتی ہے ‘اس لیے ایسے موقع پر انسان مجبور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے اس کا سہارہ لے اور وہ اپنے معاملے کی آسانی کے لیے اسی کے حضور اپیل کرے اور اسی سے مدد چاہے تاکہ حتی الامکان غلطی سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ کی پناہ ‘اس کا سہارہ اور اس کی بار گاہ بے نیاز میں اپیل دعاوالتجا کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے ‘لہذا’’ کتاب آداب القضاۃ ‘‘کے بعد ’’کتاب الاستعاذہ ‘‘کا لانا ہی مناسب تھا ‘اس لیے امام نسائی اس جگہ یہ کتاب لائے ہیں ۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک لمحہ بھی اس جہاں میں نہیں گزار سکتا ۔کو انسان کافر ہو سکتا ہے لیکن اللہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں کہانسان اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لیتا ہے اور ہر قسم کی صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود عاجز آ جاتا ہے اس وقت وہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ کسی بالاقوت کی مددحاصل ہو اور بالاقوت اللہ تعالیٰ ہے مصائب و آفتات سے بچنے کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرتا ہے ۔ مصائب دنیوی ہوں یا اخروی ‘جسمانی ہوں یا روحانی ‘مادی ہوں یا معنوی سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت سے آسانیوں میں بدلتے ہیں ۔ واللہ اعلم
حضرت شکل بن حمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبئ اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کہا:اے اللہ کے نبی! مجھے ایسے کلمات سکھائیے جن کے ساتھ میں پناہ حاصل کیا کروں۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: ”(یوں) کہہ (اے اللہ!) میں اپنے کان‘ آنکھ‘ زبان‘ دل اور منی کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“ حتیٰ کہ میں نے ان کلمات کو یاد کر لیا۔ (راوی حدیث) سعد بن اوس نے کہا: منی سے مراد اس (شخص) کا پانی‘ یعنی نطفہ ہے۔ وکیع (ابن الجراح) نے اس حدیث کے لفظوں میں اس (ابو نعیم) کی مخالفت کی ہے۔ (اگلی روایت کے الفاظ دیکھنے سے اختلاف صریح طور پر کھل جاتا ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شکل بن حمید ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! مجھے تعوذ سکھائیے جس کے ذریعے میں اللہ کی پناہ مانگوں، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا پھر فرمایا: ”کہو، «أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي وَشَرِّ بَصَرِي وَشَرِّ لِسَانِي وَشَرِّ قَلْبِي وَشَرِّ مَنِيِّي» میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کان کی برائی سے، آنکھ کی برائی سے، زبان کی برائی سے، دل کی برائی سے، منی کی برائی سے، یہاں تک کہ یہ چیز مجھے یاد ہو گئی، سعد ؓ کہتے ہیں: منی سے مراد نطفہ (پانی) ہے۔ وکیع نے الفاظ حدیث میں ابونعیم کی مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Shakal bin Humaid said: "I came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: 'O Prophet of Allah, teach me words by which I may seek refuge (with Allah).' He took me by the hand then said: 'Say: A'udhu bika min sharri sam'I, wa sharri basari, wa sharri lisani, wa sharri qalbi, wa sharri mani (I seek refuge in You from the evil of my hearing, the evil of my seeing, the evil of my tongue, the evil of my heart, and the evil of my sperm),' until I had memorized it." Waki' contradicted him in the wordings.