باب: کون سا طلاء پینا جائز ہے اور کون سا ناجائز ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Drinks
(Chapter: What Kind of Thickened Grape Juice is Permissible to Drink and What Kind is Not Permitte)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5716.
حضرت عامر بن عبداللہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کا حضرت ابو موسیٰ کو لکھا ہوا خط پڑھا: ”حمد وصلاۃ کے بعد میرے پاس شام سے ایک تجارتی قافلہ آیا ہے جن کے پاس سیاہ رنگ کا ایک گاڑھا سا مشروب ہے، جیسے اونٹوں کو ملنے والی گندھک ہوتی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح پکارتے ہو؟ انھوں نے مجھے بتا یا کہ ہم اسے دو تہائی خشک ہونے تک پکاتے ہیں۔ اس طرح اس کے دو خبیث اجزاء ختم ہو جاتے ہیں یعنی اس کا نشہ اور اس کی بو۔ (اور باقی خالص اور پاک مٹھاس رہ جاتی ہے) لہٰذا تم اپنے علاقے کے لوگوں کو ایسا مشروب پینے دو۔“
تشریح:
یہ وہی طلاء ہے جس کا ذکر پیچھے ہو چکا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ جب انگوروں کا جوس آگ پر پکانے سے اتنا خشک ہوجائے تو اس میں نشہ اور بو کا امکان نہیں رہتا۔ اس کو ان لفظوں سے بیان کیا گیا ہے کہ ”ایک تہائی نے اس کا نشہ ختم کردیا اور دوسری تہائی نے اس کی بو ختم کردی“ مگر ظاہر الفاظ مراد نہیں۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5731
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5732
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5719
تمہید کتاب
أشرِبَةٌ شراب کی جمع ہے کومشروب کے معنی میں استعمال ہوتا ہےیعنی پی جانےوالی چیز خواہ پانی ہو یا دودھ ہویا لسی یا سرکہ نبیذ ہویا خمر۔اردو میں یہ الفظ نشہ اور مشروب میں استعمال ہوتا ہے لہذا اردو میں اس کا ترجمہ مشروب کیا جائے۔اور خمر کے معنی شراب کیے جائیں گے جس سے مراد نشہ آور مشروب ہوگا۔
حضرت عامر بن عبداللہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کا حضرت ابو موسیٰ کو لکھا ہوا خط پڑھا: ”حمد وصلاۃ کے بعد میرے پاس شام سے ایک تجارتی قافلہ آیا ہے جن کے پاس سیاہ رنگ کا ایک گاڑھا سا مشروب ہے، جیسے اونٹوں کو ملنے والی گندھک ہوتی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح پکارتے ہو؟ انھوں نے مجھے بتا یا کہ ہم اسے دو تہائی خشک ہونے تک پکاتے ہیں۔ اس طرح اس کے دو خبیث اجزاء ختم ہو جاتے ہیں یعنی اس کا نشہ اور اس کی بو۔ (اور باقی خالص اور پاک مٹھاس رہ جاتی ہے) لہٰذا تم اپنے علاقے کے لوگوں کو ایسا مشروب پینے دو۔“
حدیث حاشیہ:
یہ وہی طلاء ہے جس کا ذکر پیچھے ہو چکا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ جب انگوروں کا جوس آگ پر پکانے سے اتنا خشک ہوجائے تو اس میں نشہ اور بو کا امکان نہیں رہتا۔ اس کو ان لفظوں سے بیان کیا گیا ہے کہ ”ایک تہائی نے اس کا نشہ ختم کردیا اور دوسری تہائی نے اس کی بو ختم کردی“ مگر ظاہر الفاظ مراد نہیں۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عامر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوموسیٰ اشعری کے نام عمر بن خطاب ؓ کا خط پڑھا: امابعد، میرے پاس شام کا ایک قافلہ آیا، ان کے پاس ایک مشروب تھا جو گاڑھا اور کالا تھا جیسے اونٹ کا طلاء۔ میں نے ان سے پوچھا: وہ اسے کتنا پکاتے ہیں؟ انہوں نے مجھے بتایا: وہ اسے دو تہائی پکاتے ہیں۔ اس کے دو خراب حصے جل کر ختم ہو جاتے ہیں، ایک تہائی تو شرارت (نشہ) والا اور دوسرا تہائی اس کی بدبو والا۔ لہٰذا تم اپنے ملک کے لوگوں کو اس کے پینے کی اجازت دو۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ پکانے پر انگور کے رس کی تین حالتیں ہیں: پہلی حالت یہ ہے کہ وہ نشہ لانے والا اور تیز ہوتا ہے، دوسری حالت یہ ہے کہ وہ بدبودار ہوتا ہے اور تیسری حالت یہ ہے کہ وہ عمدہ اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Amir bin 'Abdullah said: "I saw the letter of 'Umar bin Al-Khattab to Abu Musa (in which he said): 'A caravan came to me from Ash-Sham carrying a thick black paint like the pitch that is daubed on camels. I asked them how long they cooked it, and they told me that they cooked it until it was reduced by two-third. So the bad two-third had gone, one-third to take away evil and one-third to take away the bad smell. So let those who are with you drink it.