Sunan-nasai:
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
(Chapter: Raising The Voice With The Adhan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
644.
حضرت ابوسعید خدری ؓ نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابو صعصعہ انصاری سے کہا: تحقیق میں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحرا کے دلدادہ ہو، اس لیے جب تم اپنی بکریوں اور صحرا میں ہو اور تم اذان کہو تو بلند آواز سے اذان کہا کرو، اس لیے کہ مؤذن کی آواز کی انتہا تک جو بھی جن و انس یا کوئی اور چیز اسے سنتی ہے، قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ ابوسعید ؓ نے فرمایا: میں نے یہ بات اللہ کے رسول ﷺ سے سنی ہے۔
تشریح:
(1) معلوم ہوا آدمی اکیلا ہو اور بستی سے باہر ہو، تب بھی اذان کہے کہ یہ مسلمانوں کا شعار بن چکا ہے، نیز ممکن ہے وہاں قریب کوئی اور چرواہا یا مسافر ہو تو وہ بھی مل جائے گا اور نماز باجماعت پڑھی جائے گی اور اگر وہاں کوئی بھی موجود نہ ہو تو اس کے پیچھے دیگر مخلوقات، یعنی فرشتے وغیرہ نماز ادا کرتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، فائدہ حدیث: ۶۶۸) (2) اذان، تلبیہ اور تکبیر، یعنی جس میں اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان ہو، جس قدر بھی بلند آواز سے ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔ اذان تو ویسے بھی لوگوں کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے ہے، اس لیے ہر ممکن حد تک بلند آواز سے ہونی چاہیے تاکہ دور دور تک اطلاع ہوسکے، نیز قیامت کے دن تمام چیزیں اس مؤذن کے ایمان کی گواہی دیں گی، مؤذن کو اور کیا چاہیے! (3) جن بھی بنی آدم کی آواز سنتے ہیں۔ (4) مخلوق بھی ایک دوسرے کے حق میں گواہی دے گی۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابو صعصعہ انصاری سے کہا: تحقیق میں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحرا کے دلدادہ ہو، اس لیے جب تم اپنی بکریوں اور صحرا میں ہو اور تم اذان کہو تو بلند آواز سے اذان کہا کرو، اس لیے کہ مؤذن کی آواز کی انتہا تک جو بھی جن و انس یا کوئی اور چیز اسے سنتی ہے، قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ ابوسعید ؓ نے فرمایا: میں نے یہ بات اللہ کے رسول ﷺ سے سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) معلوم ہوا آدمی اکیلا ہو اور بستی سے باہر ہو، تب بھی اذان کہے کہ یہ مسلمانوں کا شعار بن چکا ہے، نیز ممکن ہے وہاں قریب کوئی اور چرواہا یا مسافر ہو تو وہ بھی مل جائے گا اور نماز باجماعت پڑھی جائے گی اور اگر وہاں کوئی بھی موجود نہ ہو تو اس کے پیچھے دیگر مخلوقات، یعنی فرشتے وغیرہ نماز ادا کرتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، فائدہ حدیث: ۶۶۸) (2) اذان، تلبیہ اور تکبیر، یعنی جس میں اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان ہو، جس قدر بھی بلند آواز سے ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔ اذان تو ویسے بھی لوگوں کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے ہے، اس لیے ہر ممکن حد تک بلند آواز سے ہونی چاہیے تاکہ دور دور تک اطلاع ہوسکے، نیز قیامت کے دن تمام چیزیں اس مؤذن کے ایمان کی گواہی دیں گی، مؤذن کو اور کیا چاہیے! (3) جن بھی بنی آدم کی آواز سنتے ہیں۔ (4) مخلوق بھی ایک دوسرے کے حق میں گواہی دے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن صعصعہ انصاری مازنی روایت کرتے ہیں کہ ابو سعید خدری ؓ نے ان سے کہا کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحراء کو محبوب رکھتے ہو، تو جب تم اپنی بکریوں میں یا اپنے جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو اپنی آواز بلند کرو کیونکہ مؤذن کی آواز جو بھی جن و انس یا کوئی اور چیز ۱؎ سنے گی تو وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گی، میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کوئی اور چیز عام ہے اس میں حیوانات نباتات اور جمادات سبھی داخل ہیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں بھی قوت گویائی عطا فرمائے گا اور یہ چیزیں بھی مؤذن کی اذان کی گواہی دیں گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA), who heard it from the mouth of the Messenger of Allah (ﷺ): "The Mu'adhdhin will be forgiven as far as his voice reaches, and every wet and dry thing will bear witness for him".