باب: دونمازیں جمع کرنے والے کےلیے ایک اقامت کافی ہو سکتی ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
(Chapter: The Iqamah For One Who Is Joining Two Prayers)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
660.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھی تھیں۔ آپ نے ان میں سے ہر نماز الگ اقامت سے پڑھی اور ان میں کسی نماز سے بھی آگے یا پیچھے نفل نہیں پڑھے۔
تشریح:
اس روایت میں ہر نماز کے لیے الگ اقامت کا ذکر ہے جب کہ پچھلی تین روایات میں دونوں کے لیے ایک اقامت کا ذکر ہے اور یہ چاروں روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے ہیں۔ پچھلے باب کی پہلی روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہے اور اس میں صراحتاً دو اقامتوں کا ذکر ہے اور یہی صحیح ہے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی دو اقامتوں کی صراحت آئی ہے، لہٰذا جس روایت میں ایک اقامت کا ذکر ہے اس سے مراد ہر نماز کے لیے ایک اقامت ہوگی یا پھر ایک اقامت والی روایت شاذ ہے۔ لیکن بعض کا کہنا ہے کہ جب اس طرح تطبیق ممکن ہے تو پھر شذوذ کے دعوے کی ضرورت نہیں، البتہ اذان ایک ہی کافی ہے کیونکہ وہ صرف لوگوں کو بلانے کے لیے ہوتی ہے۔ جمع کی صورت میں دوسری نماز کے لیے لوگ پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه البخاري؛ لكن
ليس عنده: لم يُنَادِ... وهو الصواب؛ لشذوذه ومخالفته للرواية الثامنة،
وحديث جابر المشار إليه آنفاً؛ فقد ثبت فيهما الأذان) .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا شَبَابَةُ. (ح) وحدثنا مَخْلَدُ بن خالد
- المعنى-: أخبرنا عثمان بن عمر عن ابن أبي ذئب عن الزهري... بإسناد ابن
حنبل عن حماد ومعناه.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه البخاري كما يأتي.
والحديث أخرجه البخاري (3/411) ، و النسائي (2/47) ، والدارمي
(2/58) ، والطحاوي (1/410) ، والبيهقي (5/120) ، و أحمد (2/56) من طرق
أخرى عن ابن أبي ذئب... به؛ وليس عند البخاري والدارمي قوله: لم يناد...
وهو الصواب كما ذكرته في الأعلى.
وفي رواية النسائي وأحمد شذوذ آخر؛ فإنه ليس عندهما: لكل صلاة !
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھی تھیں۔ آپ نے ان میں سے ہر نماز الگ اقامت سے پڑھی اور ان میں کسی نماز سے بھی آگے یا پیچھے نفل نہیں پڑھے۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں ہر نماز کے لیے الگ اقامت کا ذکر ہے جب کہ پچھلی تین روایات میں دونوں کے لیے ایک اقامت کا ذکر ہے اور یہ چاروں روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے ہیں۔ پچھلے باب کی پہلی روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہے اور اس میں صراحتاً دو اقامتوں کا ذکر ہے اور یہی صحیح ہے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی دو اقامتوں کی صراحت آئی ہے، لہٰذا جس روایت میں ایک اقامت کا ذکر ہے اس سے مراد ہر نماز کے لیے ایک اقامت ہوگی یا پھر ایک اقامت والی روایت شاذ ہے۔ لیکن بعض کا کہنا ہے کہ جب اس طرح تطبیق ممکن ہے تو پھر شذوذ کے دعوے کی ضرورت نہیں، البتہ اذان ایک ہی کافی ہے کیونکہ وہ صرف لوگوں کو بلانے کے لیے ہوتی ہے۔ جمع کی صورت میں دوسری نماز کے لیے لوگ پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے مزدلفہ میں دو نمازیں جمع کیں (اور) ان دونوں میں سے ہر ایک کو ایک اقامت سے پڑھا ۱؎ اور ان دونوں (نمازوں) سے پہلے اور بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت کہی، اور اس سے پہلے جو روایتیں گزری ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ دونوں کے لیے ایک ہی اقامت کہی، دونوں کے لیے الگ الگ اقامت کہنے کی تائید جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسلم میں آئی ہے، اور جس میں «بأذانٍواحدٍ وإقامتينِ» کے الفاظ آئے ہیں، نیز اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے «أقيمت الصلاة فصلى المغرب ثم أناخكل إنسان بعيره في منزله ثم أقيمت العشاء فصلاها» لہذا مثبت کی روایت کو منفی روایت پر ترجیح دی جائے گی، یا ایک اقامت والی حدیث کی تاویل یہ کی جائے کہ ہر نماز کے لیے اقامت کہی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salim, from his father, that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) joined them (Maghrib and 'Isha') in Al-Muzdalifah, and he prayed each of them with an Iqamah, and he did not offer any voluntary prayer before or after either of them.