Sunan-nasai:
The Book of Purification
(Chapter: Permitting The Usage Of Siwak In The After Noon For One Who Is Fasting)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
7.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں اپنی امت پر مشقت ڈال دوں گا، تو میں انھیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“
تشریح:
(1) مذکورہ حدیث سے ثابت ہوا کہ مسواک کرنا فرض ہے نہ جزو وضو، البتہ یہ عمل مؤکد اور مستحب ہے۔
(2) ”ہر نماز کے وقت‘‘ کے عموم کے تحت پچھلے پہر کی نمازیں (ظہر و عصر) بھی آ جاتی ہیں، لہٰذا ہر نمازی مسواک کرسکتا ہے، روزے دار ہو یا غیر روزے دار، جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے روزے دار کے لیے پچھلے پہر مسواک کرنے کو اچھا نہیں سمجھا کہ اس سے خلوف (منہ کی وہ بو جو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے روزے دار کے منہ سے نکلتی ہے) زائل ہونے کا خطرہ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسواک سے میل کچیل اور بدبو دور ہوتی ہے (جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے) نہ کہ خلوف کیونکہ اس کا تعلق تو معدے سے ہے۔
(3) بعض اہل علم کا قول ہے کہ ہر نماز کے وقت سے مراد وضو کے وقت مسواک کرنا ہے نہ کہ عین نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت کیونکہ اس صورت میں کلی کیے بغیر منہ کی آلودگی ختم نہ ہوگی۔ لیکن مذکورہ بالا توجیہ ظاہر نص کے خلاف ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص التزام سے مسواک کرتا ہے اس کا منہ آلودگی سے عموماً صاف ہی ہوتا ہے، لہٰذا اس مسئلے میں وارد احادیث کے الفاظ مختلف ہیں، بعض میں عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ اور بعض میں عِنْدَ کُلِّ وُضُوءٍ اور کچھ کے الفاظ ہیں مَعَ الْوُضُوءِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ اس لیے ان روایات کے ظاہر کے پیش نظر اکثر علماء کا یہی موقف ہے کہ عین نماز کے وقت بھی مسواک کرنا مستحب ہے۔ اس طریقے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دونوں احادیث پر عمل ہو جاتا ہے جبکہ کراہت کا موقف ان کے ہاں بے دلیل ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (السلفية‘ 51/1، طبعة جديدة)
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا سند حسن . ومنهم العباس بن عبد المطلب عند الحاكم ( 1 / 146 ) عن جعفر بن تمام عن أبيه عنه مرفوعا بلفظ " . . . لفرضت عليهم السواك عند كل صلاة كما
فرضت عليهم الوضوء " ورواه أحمد ( رقم 1835 ) من وجه آخر عن جعفر عن أبيه مرسلا لم يذكر العباس مع أنه أورده في مسند العباس ورواه البيهقي موصولا الا أنه جعله من مسند عبد الله بن العباس وقد أطال النفس في الكلام على إسناد هذا الحديث المحقق أحمد شاكر رحمه الله في تعليقه على المسند ثم قال : " ومجموع هذه . الروايات تدل على صحة الحديث وأنه عن تمام بن العباس عن أببه " . ومنهم عبد الله بن عمر أخرجه الطحاوي وقال : " حديث غربب " . قلت : ورجاله ثقات غير عبد الله بن خلف الطفاوي : قال العقيلى : " في حديثه وهم " لكن أخرجه الطبراني من طربق أخرى عن عببد بن عمر عن نافع عنه وأحمد من طريق ثالثة عن نافع به . كما في " اللسان " فهذا يدل على أن للحديث أصلا عن ابن عمر . ومنهم رجل من أصحاب النبي ( صلى الله عليه وسلم ) أخرجه أحمد ( 5 / 410 ) وسنده صحبح ورواه . الطحاوي الا أنه قال " أصحاب محمد " ( صلى الله عليه وسلم ) . ومنهم زينب بنت جحش رواه . أحمد ( 6 / 429 ) عن أم حبيبة عنها . ومن ذكره . ( 6 / 325 ) بالسند ذاته عن أم حبيبة لم يجاوزها . وكذلك رواه ابن أبى خيثمة في تاريخه بسند جسن كما قال الحافظ في " التالخيص " ( ص 23 ) . ومنهم عبد الله بن حنظلة بن أبي عامر وله رؤية . رواه أبو داود والحاكم وغيرهما بسند حسن وقد تكلمت عليه في " صحيح السنن " ( رقم 3 8 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
7
تمہید کتاب
٭لغوی تعریف: لفظ الطهارة باب تفعل سے اسم مصدر ہے جیسے طهر يطهر تطهيرا و طهارة بروزن كلم يكلم تكليما و كلاما – معنی ہیں :میل کچیل ‘گندگی اور نجاست سے پاکیزگی اور صفائی حاصل کرنا ۔ (سبل السلام)٭اصطلاحی تعریف: حدثِ اصغر (بے وضو ہو نے ) اور حدث اکبر (جنابت ‘احتلام ‘ حیض اور نفاس) کی صورت میں مسنون طریقے سے پانی سے وضو اور غسل کرنے یا پانی کی عدم موجودگی یا اس کے استعمال پر عدم قدرت کی صورت میں پاک مٹی کے ساتھ تیمم کر نے کو طہارت کہتے ہیں ۔٭طہارت کی اقسام:طہارت کی دو قسمیں ہیں 1. طہارتِ حقیقی :حدث اصغر اور حدث اکبر کی حالت میں پانی کی عدم موجودگی یا اس کی استعمال پر عدم قدرت میں پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرنا ‘ طہارتِ حکمی ہے ۔٭طہارت و نظافت کی اہمیت و فضیلت اور ضرورت : اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ۔اس میں انسانی فطرتِ سلیمہ کے ہر تقاضے اور ضرورت کا مکمل حل موجود ہے ۔ انسان کے طبعی تقاضوں کی نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ اس کی طبعی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا کیا گیا ہے ‘پھر انسان کو انھی اعمال کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے جن کو وہ آسانی نبھا سکے کیونکہ اصل حکیم و مدبر تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہے ۔ شرعی احکام میں قدرت الٰہی اور اسی کی تدبیر و حکمت کار فرما ہے ‘اس لیے بغیر کسی افراط و تفریط کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلام میں وہ رہنما اصول مقرر فرمائے جن میں اخروی سر خروئی کے ساتھ دنیوی فوائد بھی پنہاں ہیں ۔ان میں سے ایک اہم ضابطہ ‘طہارت و صفائی کا اہتمام بھی ہے کیونکہ پاکیزگی اور اس کا حصول عین انسانی فطرت ہے ‘اسی لیے احادیث میں کہیں [عشرٌ مِّنَ الفطرةِ]’’دس چیزیں فطری امور میں سے ہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم‘حدیث:261) اور کہیں [خمسُ مِّنَ الْفطْرَةِ] ’’پانچ چیزیں فطری امور میں سے ہیں ۔‘‘صحیح البخاری ‘اللباس‘ حدیث:5889 وصحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:257) وغیرہ کی تعلیم دے کر بدن کو پاک رکھنے پر زور دیا گیا ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ خود تو جمیل ہو لیکن جمال کو پسند نہ کرے کیونکہ عابد کو معبود کے سامنے دن رات کی مختلف گھڑیوں میں اپنی جبیں نیاز جھکانے کا حکم ہے اور نجاست اور پلیدی کی صورت میں عابد اور معبود کا آپس میں تعلق کیسے جر سکتا ہے ؟ حدیث میں آتا ہے [ان الله جميل يحب الجمال ]’’اللہ تعالیٰ انتہائی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے ۔‘‘صحیح مسلم‘الایمان‘ حدیث91) قرآن مجید میں ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)’’اللہ تعالیٰ خوب توبہ کرنے والوں کو پسند کر تا ہے ۔‘‘(البقرۃ2 : 222 ) عہد نبوت میں پانی کی کمی تھی ‘لوگ بول و براز سے فراغت کے بعد ڈھیلے استعمال کرتے تھے ‘ لیکن اہل قباء اس دقت کے باوجود پانی ہی سے حصول طہارت کی کوشش کرتے ‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسی خصلت اور کمال حصول کی بنا پر قرآن مجید میں ان کی تعریف فرمائی ہے (فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ) ’’ اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب طہارت حاصل کرنا پسند کرتے ہیں اور اللہ اچھی طرح پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ (التوبۃ 9:108)صفائی اور طہارت کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ) ’’اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘(المدثر 74: 4 ‘5) اسی لیے اسلام کے اہم رکن نماز کے لیے طہارت کو شرط قرار دیا گیا ہے ۔ نبئ اکرم ﷺ نے طہارت کی ترغیب کے ساتھ ساتھ خود بھی عملا امت کے سامنے اس کا مظاہرہ کیا ہے ہر نماز کے وقت مسواک کرتے اور اس کا شوق دلاتے ‘گھر آتے وقت ‘نیز صبح کو بیدار ہوتے کے بعد مسواک کا اہتمام کرتے ‘آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور منہ کی صفائی کا ذریعہ قرار دیا ہے وضو ٹوٹنے کے بعد اسی لمحے دربارہ وضو کرنے والے کو مومن قرار دیا ‘فرمایا:[لا يحافظ على الوضوء إلا مومنٌ]’’ مومن ہی وضو کی حفاظت ( اور اس پر ہمیشگی ) کرتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ ‘الطہارۃ و سننھا‘ حدیث‘277‘وصحیح الترغیب و الترھیب:1/198)مونچھیں کترانے ‘ڈاڑھی بڑھانے ‘ مسواک کرنے ‘وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانے ‘کلی کرنے ‘ختنے کرانے ‘ناخن تراشنے ‘زیر ناف بال مونڈنے‘ بغلوں کی صفائی کرنے ‘استنجا کرنے اور بدن کی مختلف ہڈیوں کے جوڑ دھونے کو اسلام نے امور فطرت میں شمار کیا ہے گویا ان کی صفائی کا اہتمام انسانی طبع کا تقاضا ہے اور ان میں سستی کا مظاہرہ گندگی کی پیداوار میں اضافے کا باعث ہے ‘ اس لیے مونچھیں ،ناخن،بغلوں، اور زیر ناف بالوں کو چھوڑنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن قرار دی ۔زہیر بن ابو علقمہ فرماتے ہیں : نبئ اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی میلے کچیلے کپڑے پہن کر پراگندہ حالت میں آیا تو آپ نے پوچھا :’’تیرے پاس مال ہے ؟ ‘‘ اس نے جواب دیا: جی ہاں ‘ ہر قسم کا مال موجود ہے ‘تب آپ نے فرمایا :’’ تو پھر اس کے اثرات بھی تم پر نظر آنے چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے پر اس کی نعمتوں کے اچھے اثرات نظر آئیں ۔‘‘مجمع الزوائد:5/ 132‘رقم :8583‘وسلسلۃ الاحادیث الصحیۃ: 3/311) لہذا پرا گندا حالت میں رہنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور نہ یہ کسی ولایت اور اللہ کے ہاں کسی تقرب کی دلیل ہے جیسا کہ آج کل بہت سے نام نہاد صوفی جو ولایت اور تقرب کا جھانسا دے کر ننگ دھڑنگ اور گندگی میں لت پت ’’طریقت‘‘ پر عمل پیرا ہیں یہ سراسر اسلام کے نظام طہارت کے خلاف ہے اسی طرح جوتے کی صفائی کا حکم ہے جبکہ ضرورت کے پیش نظر اس میں نماز پڑھنے کا ارادہ ہو ۔ غرضیکہ تمام امور میں صفائی اور طہارت کو لازمی قرار دیاگیا ہے ‘ مثال کے طور پر چند اہم امور درج ذیل ہیں :(1) غسل خانے میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے ۔(2) ضرورت کے پیش نظر اگر کسی برتن میں پیشاب کیا ہے تو اسے جلد بہا دیا جائے ‘زیاد یر رکھنے سے گندگی اور تعفن پھیلے گا جس سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوں گے-(3) برتنوں کی صفائی کا اہتمام ‘جیسے اگر برتن کتا چاٹ جائے تو سات دفعہ دھونے کا حکم ‘برتنوں کو ڈھانک کر رکھنے کا حکم ۔(4) سایہ دار درخت کے نیچے پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ ممکن ہے کوئی اس کی چھاؤں میں بیٹھنا چاہے۔(5) آباد راستے میں بول و براز کرنا منع ہ اس سے آنے جانے والوں کو اذیت ہو گیاور یہ باعث لعنت ہے (6( پانی کے حوض ‘گھاٹ ‘ کنویں اور عام کھڑے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے ۔(7) پیشاب کے چھینٹوں سے بچاؤ کا اہتمام ‘ وگرنہ اس پر سخت عذاب ہوگا۔(8( بیٹھ کر اور نرم جگہ پر پیشاب کیا جائے تا کہ کپڑے آلودگی سے محفوظ رہیں (9)جنبی کا غسل کرنے میں حد سے زیادہ سستی کرنا نا پسندیدہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے رحمت کے فرشتے نہیں آتے (صحیح الترغیب والترھیب :1/199)(10) طہارت و صفائی کے اہتمام کی خاطر غسل جنابت کا اسلام کے دیگر ارکان کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے : [وتغسل من الجنابة ] ’’اور تو جنابت سے غسل کرے ۔‘‘(صحیح الترغیب و الترھیب :1/185)(11) وضو جہاں ناک ‘منہ‘ گلے ‘آنکھوں اور کان وغیرہ کی صفائی ہوتی ہے ‘ وہاں اس کے کثیر فضائل بھی بیان کیے گئے تاکہ مزید نظافت کا اہتمام ہو۔(12) طہارت او روضو کے اہتمام کو دخول جنت اور رفع درجات کا باعث بنایا جیسا کہ حضرت بلال کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے ۔ (صحیح الترغیب و الترھیب:1/199)(13) طہارت و پاکیزگی کا اہتمام اور پھر اس کے لیے دعا گو رہنا مسنون ہے جیسا کہ [واجعلنى من المتطهرين ]’’اور مجھے بہت زیادہ پاک رہنے والو ں میں سے بنا دے ‘‘ سے ثابت ہوتا ہے ۔(جامع ترمذی ‘الطہارۃ‘حدیث :55)(14) احتلام ‘جنابت اور حیض و نفاس کے بعد غسل کا حکم اور خروج مذی‘ ودی اور رطوبت کے بعد وضو کا حکم عظمت طہارت کی واضح دلیل ہے ۔(15) بچے اور بچی کے پیشاب کی صورت میں چلو بھر پانی سے چھینٹے مار لینا ہی کافی ہے ‘لیکن حصول طہارت بہر حال لازمی ہے ۔(16) زمین کی پاکیزگی کا حکم جیسا کہ اعرابی کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہانے کا حکم ہے ۔(17) یہاں تک کہ مردہ حلال جانور کی کچی کھال کی طہارت کے لیے دباغت (چمڑا رنگنے ) کو لازم قرار دیا ۔(18) گوبر اور ہڈی وغیرہ سے استنجا اور طہارت حاصل کرنا منع ہے ۔الحاصل: دین فطرت ‘اسلام دیگر تمام ادیان و مذاہب پر ان امور میں فائق ہے یہودیت ‘عسائیت‘ مجوسیت‘ہندومت ‘بدھ مت اور سکھ مذہب میں طہارت و نظافت کا یہ اہتمام بالکل مفقود ہے ان مذاہب کے حامل ،حیوانوں کی سی زندگی گزارتے ہیں بلکہ بعض امور میں ان سے بڑھ کر ہیں ۔ اسلام کی یہ وہ امتیازی خوبی ہے جس پر مشرکین کو تعجب ہوا اور انھوں نے طنزاً حضرت سلمان فارسی سے کہا:ہم دیکھتے ہیں کہ تمھارا نبی تمھیں قضائے حاجت کے آداب تک سکھاتا ہے ۔ انھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ ارو شرمندگی کے مدبرانہ انداز میں تحمل سے جواب دیا : ہاں آپ نے ہمیں دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے اور پیشاب ‘ پاخانے کے وقت قبلہ رخ ہوتے سے منع فرمایا ہے ارو یہ کہ ہم میں سے کوئی تین ڈھیلوں سے کم میں استنجا نہ کرے اور گوبر یا ہڈی سے بھی استنجا نہ کر ے۔(صحیح مسلم‘الطہارۃ ،حدیث:262)یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ اس نے طہارت و پاکیزگی کو نصف ایمان یا ایمان کا ایک حصہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:[الطهور شطر الايمان]’’صفائی نصف ایمان ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم ‘الطہارۃ،حدیث:223) بہر حال صفائی کا اہتمام ایمان ہے اور ایمان ہی دخول جنت کا باعث ہے ۔سنن نسائی کا اندازِ تالیف فقہی کتب جیسا ہے جن میں صرف اعمال شرعیہ کا بیان ہوتا ہے اعمال کی دو قسمیں ہیں : عبادت اور معاملات چونکہ عبادات حقوق اللہ ہیں اس لیے ان کا درجہ مقدم ہے عبادات میں سب سے اہم عبادت نماز ہے جو ہر عاقل بالغ مسلمان پر آغاز ِشعور سے دمِ واپسیں تک فرض ہے ‘نیز یہ تمام عبادات کی جامع ہے ‘اس لیے عبادت میں اسے مقدم کیا جاتا ہے ۔نماز کی شرط میں طہارت سب سے اہم ہے ‘لہذا اس کا تذکرہ سب سے پہلے ہوتا ہے طہارت سے مراد یہ ہے کہ نمازی کا جسم لباس اور مکان نجاست سے پاک ہوں۔ضروری ہے کہ جسم ظاہری اور معنوی نجاست سے پاک ہو معنوی نجاست سے مراد بے وضو ہونا اور جنبی ہونا ہے آئندہ احادیث میں دونوں کی نجاست سے طہارت کا ذکر ہے معنوی نجاست سے طہارت کا ذکر پیلے کیاگیا ہے کیونکہ اس کا نماز سے خصوصی تعلق ہے ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں اپنی امت پر مشقت ڈال دوں گا، تو میں انھیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ حدیث سے ثابت ہوا کہ مسواک کرنا فرض ہے نہ جزو وضو، البتہ یہ عمل مؤکد اور مستحب ہے۔
(2) ”ہر نماز کے وقت‘‘ کے عموم کے تحت پچھلے پہر کی نمازیں (ظہر و عصر) بھی آ جاتی ہیں، لہٰذا ہر نمازی مسواک کرسکتا ہے، روزے دار ہو یا غیر روزے دار، جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے روزے دار کے لیے پچھلے پہر مسواک کرنے کو اچھا نہیں سمجھا کہ اس سے خلوف (منہ کی وہ بو جو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے روزے دار کے منہ سے نکلتی ہے) زائل ہونے کا خطرہ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسواک سے میل کچیل اور بدبو دور ہوتی ہے (جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے) نہ کہ خلوف کیونکہ اس کا تعلق تو معدے سے ہے۔
(3) بعض اہل علم کا قول ہے کہ ہر نماز کے وقت سے مراد وضو کے وقت مسواک کرنا ہے نہ کہ عین نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت کیونکہ اس صورت میں کلی کیے بغیر منہ کی آلودگی ختم نہ ہوگی۔ لیکن مذکورہ بالا توجیہ ظاہر نص کے خلاف ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص التزام سے مسواک کرتا ہے اس کا منہ آلودگی سے عموماً صاف ہی ہوتا ہے، لہٰذا اس مسئلے میں وارد احادیث کے الفاظ مختلف ہیں، بعض میں عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ اور بعض میں عِنْدَ کُلِّ وُضُوءٍ اور کچھ کے الفاظ ہیں مَعَ الْوُضُوءِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ اس لیے ان روایات کے ظاہر کے پیش نظر اکثر علماء کا یہی موقف ہے کہ عین نماز کے وقت بھی مسواک کرنا مستحب ہے۔ اس طریقے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دونوں احادیث پر عمل ہو جاتا ہے جبکہ کراہت کا موقف ان کے ہاں بے دلیل ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (السلفية‘ 51/1، طبعة جديدة)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت کے لیے باعث مشقت نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی وجوبی حکم دیتا، رہا مسواک کا ہر نماز کے وقت مسنون ہونا تو وہ ثابت ہے، اور باب سے مناسبت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم عام ہے، صائم اور غیر صائم دونوں کو شامل ہے، اسی طرح صبح، دوپہر اور شام سبھی وقتوں کو شامل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “Were it not that it would be too difficult for my Ummah, I would have commanded them to use the Siwak at (the time of) every Salah.” (Sahih)