باب: عصر سے پہلے (نفل) نماز اور اس مسئلے کے متعلق ابو اسحاق سے ناقلین کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Prayer before Asr and different narrations from Abu Ishaq concerning that)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
874.
حضرت عاصم بن ضمرہ نے کہا کہ ہم نے حضرت علی ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نفل نماز کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: تم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ ہم نے کہا: اگر ہم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو کم از کم سن تو لیں۔ آپ نے فرمایا: جب سورج اس (مشرق کی) طرف اتنا اونچا ہوتا جتنا کہ وہ اس (مغرب کی) طرف میں عصر کے وقت ہوتا ہے تو آپ دو رکعتیں پڑھتے۔ اور جب سورج اس (مشرق کی) طرف اتنا ہوتا جتنا وہ اس (مغرب کی) طرف ظہر کے وقت ہوتا ہے تو چار رکعت پڑھتے۔ اور ظہر سے پہلے چار رکعت اور بعد میں دو رکعت پڑھتے۔ اور عصر سے پہلے اس طرح چار رکعت پڑھتے کہ ہر دو رکعت کے بعد (تشہد میں) مقرب فرشتوں، انبیاء اور ان کی پیروی کرنے والے مومنوں اور مسلمانوں پر سلام پڑھتے۔
تشریح:
(1) پہلی نفل نماز سے مراد صلاۃ ضحیٰ (چاشت کی نماز) ہے۔ اگر سورج کے بقدر نیزہ یا دو نیزے ہونے پر یہ نماز پڑھی جائے تو اسے صلاۃ اشراق کہتے ہیں۔ بہرحال صلاۃ اشراق، صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ اور یہ نام صرف وقت کی تبدیلی کی وجہ سے مختلف ہیں۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (القول المقبول، ص:۶۸۸) اور دوسری نفل نماز سے مراد سنتِ زوال ہے کیونکہ سورج کے زوال پذیر ہونے سے قبل اس کی ادائیگی ہوتی ہے۔ (2) اس سلام سے مراد تشہد کے دوران میں [السَّلامُعلَيناو على عبادِ اللهِ الصّالحينَ] ”ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔“ پڑھنا ہے، نہ کہ فراغت والا سلام۔ اور فرشتے، انبیاء اور دیگر کا ذکر صالحین کی تفسیر ہے۔
حضرت عاصم بن ضمرہ نے کہا کہ ہم نے حضرت علی ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نفل نماز کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: تم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ ہم نے کہا: اگر ہم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو کم از کم سن تو لیں۔ آپ نے فرمایا: جب سورج اس (مشرق کی) طرف اتنا اونچا ہوتا جتنا کہ وہ اس (مغرب کی) طرف میں عصر کے وقت ہوتا ہے تو آپ دو رکعتیں پڑھتے۔ اور جب سورج اس (مشرق کی) طرف اتنا ہوتا جتنا وہ اس (مغرب کی) طرف ظہر کے وقت ہوتا ہے تو چار رکعت پڑھتے۔ اور ظہر سے پہلے چار رکعت اور بعد میں دو رکعت پڑھتے۔ اور عصر سے پہلے اس طرح چار رکعت پڑھتے کہ ہر دو رکعت کے بعد (تشہد میں) مقرب فرشتوں، انبیاء اور ان کی پیروی کرنے والے مومنوں اور مسلمانوں پر سلام پڑھتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) پہلی نفل نماز سے مراد صلاۃ ضحیٰ (چاشت کی نماز) ہے۔ اگر سورج کے بقدر نیزہ یا دو نیزے ہونے پر یہ نماز پڑھی جائے تو اسے صلاۃ اشراق کہتے ہیں۔ بہرحال صلاۃ اشراق، صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ اور یہ نام صرف وقت کی تبدیلی کی وجہ سے مختلف ہیں۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (القول المقبول، ص:۶۸۸) اور دوسری نفل نماز سے مراد سنتِ زوال ہے کیونکہ سورج کے زوال پذیر ہونے سے قبل اس کی ادائیگی ہوتی ہے۔ (2) اس سلام سے مراد تشہد کے دوران میں [السَّلامُعلَيناو على عبادِ اللهِ الصّالحينَ] ”ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔“ پڑھنا ہے، نہ کہ فراغت والا سلام۔ اور فرشتے، انبیاء اور دیگر کا ذکر صالحین کی تفسیر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: تم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ ہم نے کہا: گرچہ ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے مگر سن تو لیں، تو انہوں نے کہا: جب سورج یہاں ہوتا ۱؎ جس طرح عصر کے وقت یہاں ہوتا ہے ۲؎ تو آپ دو رکعت (سنت) پڑھتے ۳؎ ، اور جب سورج یہاں ہوتا جس طرح ظہر کے وقت ہوتا ہے تو آپ چار رکعت (سنت) پڑھتے ۴؎ ، اور ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے ۵؎ ، اور اس کے بعد دو رکعت پڑھتے، اور عصر سے پہلے چار رکعت (سنت) پڑھتے، ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں اور نبیوں پر اور ان کے پیروکار مومنوں اور مسلمانوں پر سلام کے ذریعہ ۶؎ فصل کرتے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی مشرق میں۔ ۲؎ : یعنی مغرب میں۔ ۳؎ : یعنی چاشت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے۔ ۴؎ : اس سے مراد صلاۃ الاوابین ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال سے پہلے پڑھتے تھے۔ ۵؎ : ظہر سے پہلے چار رکعت اور دو رکعت دونوں کی روایتیں آئی ہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ دونوں جائز ہے، کبھی ایسا کر لے اور کبھی ایسا، لیکن چار والی روایت کو اختیار کرنا اولیٰ ہے، کیونکہ یہ قولی حدیث سے ثابت ہے۔ ۶؎ : یعنی تشہد کے ذریعہ فصل کرتے، تشہد کو تسلیم اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں «السَّلامُعلَيناو على عبادِ اللهِ الصّالحينَ» کا ٹکڑا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Ishaq, that 'Asim bin Damrah said: "We asked 'Ali (RA) about the prayer of the Messenger of Allah (ﷺ). He said: 'Who among you could manage to do that'? We said: 'Even if we cannot do it, we still want to hear about it'. He said: 'When the sun reached the same height (in the east) as it reaches (in the west) at the time of 'Asr, he would pray two rak'ahs, and when the sun reached the same height (in the east) as it reaches (in the west) at the time for Zuhr he would pray four Rak'ahs. He would pray four Rak'ahs before Zuhr and two after, and he would pray four Rak'ahs before 'Asr, separating each two Rak'ahs with Taslim upon the angels who are close to Allah, and the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)s, and those who follow them of the believers and Muslims"'.