Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Reciting: "In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
904.
حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی ﷺ ہمارے درمیان بیٹھے تھے کہ آپ کو اونگھ سی آگئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا۔ ہم نے آپ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہنسنے کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’مجھ پرابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے: (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) (إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ۔) ”اللہ رحمان و رحیم کے نام سے (شروع)۔ بلاشبہ ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی، لہٰذا اپنے رب تعالیٰ کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ یقیناً آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”تم جانتے ہو، کوثر کیا ہے؟“ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ جنت میں ایک نہر ہے جس کا مجھ سے میرے رب تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔ اس کے برتن ستاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔ میری امت اس پر میرے پاس آئے گی۔ ایک آدمی کو ان میں سے کھینچ لیا جائے گا۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ شخص تو میری امت سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آپ نہیں جانتے، آپ کے بعد اس نے کیا نیا کام کیا۔“
تشریح:
(1) سورۂ کوثر میں مذکور ”الکوثر“ کی تفسیر میں اسلاف اہل علم کا اختلاف ہے۔ مختلف اہل علم صحابہ اور تابعین وغیرہ نے اس کی مختلف تفسیریں بیان کی ہیں لیکن اس حدیث میں خود زبان رسالت سے ”الکوثر“ کی تفسیر معلوم ہوگئی ہے کہ وہ جنت میں ایک نہر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ بہت وسیع و عریض ہے۔ اس طرح کہ اس کی لمبائی اور چوڑائی برابر ہیں۔ اس کے آب خورے آسمان کے تاروں سے بھی زیادہ ہیں۔ اس کے متعلق حدیث شریف میں یہ صراحت بھی ہے کہ ”جس نے اس نہر کا پانی پی لیا، اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔“ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث:۶۵۷۹، وصحیح مسلم، الفضائل، حدیث:۲۲۹۲) (2) مقتدی اپنے امام سے، چھوٹا اپنے بڑے سے اور اسی طرح مرید اپنے پیر سے کوئی نئی بات دیکھ کر اس کی بابت سوال کرسکتا ہے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے دیکھا تو آپ سے مسکرانے کا سبب پوچھ لیا۔ بزرگوں اور مشائخ کو ایسے سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس سوال کا جواب بھی دیا تھا۔ (3) اس اونگھ سے مراد وحی کی کیفیت ہوگی۔ (4) امام صاحب کا استدلال یہ ہے کہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سورت کا جز ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اگرچہ یہ احتمال بھی ہے کہ آپ نے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) تبرکا پڑھی ہو۔ دونوں صورتوں میں ہر سورت سے پہلے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھنی ہے، خواہ جز ہو یا تبرک کے طور پر۔ البتہ سروجہر، یعنی آہستہ اور اونچی کی بحث ہوسکتی ہے۔ آپ نے مندرجہ بالا حدیث میں تو جہراً ہی پڑھی ہے مگر یہ نماز سے باہر کی بات ہے۔ نماز کے اندر اکثر روایات آہستہ پڑھنے کے بارے میں آتی ہیں اگرچہ کبھی کبھار جہرا بھی جائز ہے۔ (5) امام شافعی (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو ہر سورت کا جز سمجھتے ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے تبرک خیال کرتے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ یہ سورۂ فاتحہ کا جز ہے۔ (6) ”آپ کے بعد اس نے کیا نیاکام کیا۔“ یہ اشارہ ارتداد کی طرف بھی ہوسکتا ہے اور بدعات کے اجرا کی طرف بھی۔ واللہ أعلم۔ (7) بدعت اس قدر خطرناک اور سنگین جرم ہے کہ روزقیامت بدعتی شخص کو حوض کوثر سے دور ہٹا کر جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ (8) بدعتی کو حوض کوثر کے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہیں ہوگا کیونکہ بدعتی نے جرم عظیم کا ارتکاب کیا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلا اور خود کو ”مقام رسالت“ پر فائز کرلیا، لہٰذا اس کے لیے سخت ترین وعید ہے۔ اعاذنا اللہ منه۔ (9) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں۔ (10) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں۔ (11) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مختار کل نہیں۔ قیامت والے دن بھی صرف اسے ہی نجات ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔ اور اسے معاف فرمائے گا، لہٰذا درج ذیل عقیدہ تعلیمات نبوی کے منافی اور ایمان کے فنا کا موجب ہے کہ ؎ اللہ کے پلڑے میں وحدت کے سوا کیا ہے جو کچھ ہمیں لینا ہے لے لیں گے محمد سے
الحکم التفصیلی:
إسناده صحيح على شرط مسلم وقد أخرجه كما يأتي
والحديث أخرجه مسلم بإسناد المصنف هذا وأخرجه هنا وفي الصلاة من طريق علي بن حجر السعدي حدثنا علي بن مسهر به وهو أتم
وكذلك أخرجه أحمد ( 3 / 102 )
ثنا محمد بن فضيل ثنا المختار بن فلفلبه وهو من رواية لمسلم
وتابعه عبد العزيز بن صهيب عن أنس به
حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی ﷺ ہمارے درمیان بیٹھے تھے کہ آپ کو اونگھ سی آگئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا۔ ہم نے آپ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہنسنے کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’مجھ پرابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے: (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) (إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ۔) ”اللہ رحمان و رحیم کے نام سے (شروع)۔ بلاشبہ ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی، لہٰذا اپنے رب تعالیٰ کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ یقیناً آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”تم جانتے ہو، کوثر کیا ہے؟“ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ جنت میں ایک نہر ہے جس کا مجھ سے میرے رب تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔ اس کے برتن ستاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔ میری امت اس پر میرے پاس آئے گی۔ ایک آدمی کو ان میں سے کھینچ لیا جائے گا۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ شخص تو میری امت سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آپ نہیں جانتے، آپ کے بعد اس نے کیا نیا کام کیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) سورۂ کوثر میں مذکور ”الکوثر“ کی تفسیر میں اسلاف اہل علم کا اختلاف ہے۔ مختلف اہل علم صحابہ اور تابعین وغیرہ نے اس کی مختلف تفسیریں بیان کی ہیں لیکن اس حدیث میں خود زبان رسالت سے ”الکوثر“ کی تفسیر معلوم ہوگئی ہے کہ وہ جنت میں ایک نہر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ بہت وسیع و عریض ہے۔ اس طرح کہ اس کی لمبائی اور چوڑائی برابر ہیں۔ اس کے آب خورے آسمان کے تاروں سے بھی زیادہ ہیں۔ اس کے متعلق حدیث شریف میں یہ صراحت بھی ہے کہ ”جس نے اس نہر کا پانی پی لیا، اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔“ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث:۶۵۷۹، وصحیح مسلم، الفضائل، حدیث:۲۲۹۲) (2) مقتدی اپنے امام سے، چھوٹا اپنے بڑے سے اور اسی طرح مرید اپنے پیر سے کوئی نئی بات دیکھ کر اس کی بابت سوال کرسکتا ہے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے دیکھا تو آپ سے مسکرانے کا سبب پوچھ لیا۔ بزرگوں اور مشائخ کو ایسے سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس سوال کا جواب بھی دیا تھا۔ (3) اس اونگھ سے مراد وحی کی کیفیت ہوگی۔ (4) امام صاحب کا استدلال یہ ہے کہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سورت کا جز ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اگرچہ یہ احتمال بھی ہے کہ آپ نے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) تبرکا پڑھی ہو۔ دونوں صورتوں میں ہر سورت سے پہلے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھنی ہے، خواہ جز ہو یا تبرک کے طور پر۔ البتہ سروجہر، یعنی آہستہ اور اونچی کی بحث ہوسکتی ہے۔ آپ نے مندرجہ بالا حدیث میں تو جہراً ہی پڑھی ہے مگر یہ نماز سے باہر کی بات ہے۔ نماز کے اندر اکثر روایات آہستہ پڑھنے کے بارے میں آتی ہیں اگرچہ کبھی کبھار جہرا بھی جائز ہے۔ (5) امام شافعی (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو ہر سورت کا جز سمجھتے ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے تبرک خیال کرتے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ یہ سورۂ فاتحہ کا جز ہے۔ (6) ”آپ کے بعد اس نے کیا نیاکام کیا۔“ یہ اشارہ ارتداد کی طرف بھی ہوسکتا ہے اور بدعات کے اجرا کی طرف بھی۔ واللہ أعلم۔ (7) بدعت اس قدر خطرناک اور سنگین جرم ہے کہ روزقیامت بدعتی شخص کو حوض کوثر سے دور ہٹا کر جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ (8) بدعتی کو حوض کوثر کے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہیں ہوگا کیونکہ بدعتی نے جرم عظیم کا ارتکاب کیا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلا اور خود کو ”مقام رسالت“ پر فائز کرلیا، لہٰذا اس کے لیے سخت ترین وعید ہے۔ اعاذنا اللہ منه۔ (9) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں۔ (10) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں۔ (11) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مختار کل نہیں۔ قیامت والے دن بھی صرف اسے ہی نجات ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔ اور اسے معاف فرمائے گا، لہٰذا درج ذیل عقیدہ تعلیمات نبوی کے منافی اور ایمان کے فنا کا موجب ہے کہ ؎ اللہ کے پلڑے میں وحدت کے سوا کیا ہے جو کچھ ہمیں لینا ہے لے لیں گے محمد سے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن آپ یعنی نبی اکرم ﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ یکایک آپ کو جھپکی سی آئی، پھر مسکراتے ہوئے آپ نے اپنا سر اٹھایا، تو ہم نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت اتری ہے «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ» ” شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے، یقیناً ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی، تو آپ اپنے رب کے لیے صلاۃ پڑھیں، اور قربانی کریں، یقیناً آپ کا دشمن ہی لاوارث اور بے نام و نشان ہے“ ، پھر آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے؟“ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ جنت کی ایک نہر ہے جس کا میرے رب نے وعدہ کیا ہے، جس کے آبخورے تاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں، میری امت اس حوض پر میرے پاس آئے گی، ان میں سے ایک شخص کھینچ لیا جائے گا تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو میری امت میں سے ہے؟ تو اللہ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا: تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے تمہارے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کی ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Anas in Malik (RA) said: "One day when he-the Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)was still among us, he took a nap, then he raised his head, smiling. We said to him: 'Why are you smiling, O Messenger of Allah'? He said: 'Just now this Surah was revealed to me: In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. Verily, We have granted you (O Muahmmad) Al-Kawthar. Therefore turn in prayer to your Lord and sacrifice (to Him only). For he who hates you, he will be cut off.' Then he said: 'Do you know what Al-Kawthar is'? We said: 'Allah and His Messenger know best.' He said: 'It is a river that my Lord has promised me in Paradise. Its vessels are more than the number of the stars. My Ummah will come to me, then a man among them will be pulled away and I will say: "O Lord, he is one of my Ummah" and He will say to me: 'You do not know what he did after you were gone".