موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
جامع الترمذي: أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي تَعْظِيمِ الْمُؤْمِنِ)
حکم : حسن
2178 . حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ وَالْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَا حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ أَوْفَى بْنِ دَلْهَمٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَنَادَى بِصَوْتٍ رَفِيعٍ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الْإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تُعَيِّرُوهُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ قَالَ وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَى الْبَيْتِ أَوْ إِلَى الْكَعْبَةِ فَقَالَ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ وَرَوَى إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ السَّمَرْقَنْدِيُّ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ نَحْوَهُ وَرُوِي عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا
جامع ترمذی:
كتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں
(باب: مومن کی عظمت کابیان
)مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
2178. عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ منبرپر تشریف لائے، بلندآواز سے پکارااورفرمایا: ’’اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عارمت دلاؤ اوران کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اوراللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے ، اسے رسوا وذلیل کردیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندرہو‘‘۔ راوی (نافع) کہتے ہیں: ایک دن ابن عمر ؓ نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا: کعبہ! تم کتنی عظمت والے ہو ! اورتمہاری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن اللہ کی نظرمیں مومن (کامل) کی حرمت تجھ سے زیادہ عظیم ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں۔۲۔ اسحاق بن ابراہیم سمرقندی نے بھی حسین بن واقد سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔۳۔ ابوبرزہ اسلمی ؓ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔