تشریح:
وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کی ساری نیکیاں آخرت میں چھین لی جائیں، اس سے بدلہ لینے والے باقی رہ جائیں، اور اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں، یہی حقیقی مفلس ہے، باقی وہ دنیاوی مفلس جو مال ودولت کی کمی کی وجہ سے مفلس وبے چارگی کی زندگی گزار تا ہے، تو یہ ایسا ہے کہ اس کی زندگی کے سدھر نے کا امکان ہے، اور اگر نہیں بھی سدھر ی تو اس کا یہ معاملہ اس کی موت تک ہے، کیوں کہ مرنے کے بعد اسے ایک نئی زندگی ملنے والی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 526 :
أخرجه البخاري في " الأدب المفرد " ( 425 ) و الطحاوي في " المشكل " ( 3 / 139
) و البيهقي في " السنن " ( 10 / 246 - 247 ) من طريق يزيد ابن أبي حبيب عن
سنان بن سعد عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : فذكره .
قلت : و هذا إسناد حسن رجاله كلهم ثقات ، و في سنان بن سعد - و يقال : سعد بن
سنان - خلاف و قد قال الحافظ : " صدوق ، له أفراد " .
قلت : و يشهد له الحديث الآتي :
" ألا أنبئكم ما العضه ؟ هي النميمة القالة بين الناس ، و في رواية : النميمة
التي تفسد بين الناس " .