تشریح:
۱؎: اس ممانعت کی وجہ کیا ہے، اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، سب سے صحیح وجہ اس کا یوم عید ہونا ہے، اس کی صراحت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے جس کی تخریج حاکم وغیرہ نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے ((يَوْمُ الجُمُعَةِ يَوْمُ عِيدٍ، فَلاَ تَجْعَلُوا يَوْمَ عِيدِكم يَوْمَ صِيَامِكُم إلاَّ أَنْ تَصُومُوا قَبلَهُ أَوْ بَعْدَه)) ’’جمعہ کا دن عید کا دن ہے، اس لیے اپنے عید والے دن روزہ نہ رکھا کرو، إلا یہ کہ اس سے ایک دن قبل (جمعرات کا بھی) روزہ رکھو یا اس سے ایک دن بعد (سنیچرکے دن) کا بھی‘‘۔ اور ابن ابی شیبہ نے بھی اسی مفہوم کی ایک حدیث علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جس کی سند حسن ہے اس کے الفاظ یہ ہیں ((مَنْ كَانَ مِنْكُم مُتَطَوِّعًا منَ الشهرِ أيامًا، فليَكُنْ فِي صَوْمِه يَوْمُ الخَميسِ، وَلَا يَصُمْ يَومََ الْجُمُعةِ، فإنَّه يومُ طَعَامٍ وَشَرَابٍ)) ’’تم میں سے جو کوئی کسی مہینے کے نفلی روزے رکھ رہا ہو، وہ جمعرات کے دن کا روزہ رکھے، جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھے، اس لیے کہ یہ کھانے پینے کا دن ہوتا ہے‘‘۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه هو ومسلم وابن خزيمة وابن حبان في "صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا مسدد: ثنا أبو معاوية، عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير مسدد، فهو على شرط البخاري وحده، وقد توبع كما يأتي.
والحديث أخرجه أبو بكر بن أبي شيبة في "المصنف " (3/43) : حدثنا أبو معاوية... به. ومن طريقه: أخرجه مسلم وابن ماجه. وأخرجاه، وكذا البخاري وغيرهم من طرق أخرى عن الأعمش... به. وهو مخرج في "الإرواء" (959) ، و "الصحيحة " (2945) .